کسان تحریک: دہلی ہی نہیں، کئی ریاستوں میں جاری ہے کسانوں کا مظاہرہ

دہلی کے ٹیکری، سنگھو اور چلّا بارڈر پر کسان تحریک شروع ہوئے ایک ہفتہ سے زیادہ ہو چکا ہے، اور اس کی خبر جیسے جیسے دوسری ریاستوں میں پہنچ رہی ہے، وہاں بھی کسان طبقہ سڑکوں پر اترتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

تنویر

مودی حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ سے پاس کرائے گئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک دہلی کی سرحدوں پر زور پکڑتی جا رہی ہے۔ حالانکہ کسان لیڈروں کا مذاکرہ حکومت ہند کے نمائندوں کے ساتھ جاری ہے، لیکن ہنوز کوئی بات بنتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسانوں کی یہ تحریک صرف دہلی کی سرحدوں پر ہی جاری نہیں ہے، بلکہ ہندوستان کی کئی ریاستوں میں کسان سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں اور ان کی حمایت میں کئی ادارے بھی کھڑے ہو رہے ہیں۔

دہلی کے ٹیکری بارڈر، سنگھو بارڈر، غازی آباد بارڈر اور چلّا بارڈر پر کسانوں کی تحریک شروع ہوئے ایک ہفتہ سے زیادہ ہو چکا ہے، اور اس کی خبر جیسے جیسے دوسری ریاستوں میں پہنچ رہی ہے، وہاں بھی کسان طبقہ سڑکوں پر اترتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسان تو پہلے سے ہی سراپا احتجاج نظر آ رہے تھے، اب اتر پردیش، بہار اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں بھی مودی حکومت کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور زرعی قوانین کی منسوخی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔


میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق اتر پردیش سے تو کسانوں کا کوئی گروپ غازی آباد بارڈر اور دوسرے راستوں پر جمع ہو گیا ہے۔ میرٹھ، لکھنؤ اور دیگر علاقوں میں کسانوں کے کئی گروپ دہلی پہنچنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایسی کئی رپورٹیں سامنے آئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اتر پردیش کے کسان ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کی آواز میں آواز ملانے کے لیے گھروں سے نکل چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی میں داخل ہونے والے راستوں کو ایک طرح سے پولس چھاؤنی میں بدل دیا گیا ہے۔

بہار میں نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے بہار کی اہم اپوزیشن پارٹی آر جے ڈی آج سڑکوں پر نظر آ رہی ہے۔ مہاگٹھ بندھن کے کئی لیڈران و کارکنان آج گاندھی میدان مظاہرہ کرنے کے لیے پہنچے تھے لیکن انتظامیہ نے انھیں اجازت نہیں دی جس کی وجہ سے گاندھی میدان کے باہر ہی وہ دھرنے پر بیٹھ گئے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس میں کئی کسان بھائی بھی شامل ہیں۔ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے بھی کسانوں کی حمایت میں آواز اٹھاتے ہوئے کہا کہ مرکز جلد از جلد سیاہ زرعی قوانین کو واپس لے۔


تمل ناڈو میں بھی نئے زرعی قوانین کے خلاف زور دار احتجاجی مظاہرہ شروع ہو گیا ہے۔ ڈی ایم کے سربراہ ایم کے اسٹالن نے زرعی قوانین کی مخالفت میں سلیم میں احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’ہم زرعی قوانین کے خلاف عدالت گئے۔ کیرالہ اور پنجاب پہلے ہی عدالت میں جا چکے ہیں۔ ہمارے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ سب سے پہلے کسان ہیں، تو پھر کیوں وہ ضروری قدم نہیں اٹھاتے۔‘‘

اس درمیان زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاجی مظاہرہ پنجاب اور ہریانہ میں تیز سے تیز تر ہو گیا ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں لگاتار کسانوں کا نیا گروپ مظاہرے میں شامل ہو رہا ہے۔ حالانکہ مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے ہفتہ کو کسان تنظیموں کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کو لے کر کافی مثبت امید ظاہر کی ہے، لیکن کئی کسان تنظیموں نے واضح لفظوں میں کہہ رکھا ہے کہ وہ زرعی قوانین کی واپسی سے کم کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔