مہاراشٹر: سپریم کورٹ منگل کی صبح 10.30 بجے کرے گا فڑنویس حکومت کی ’قسمت‘ کا فیصلہ

مہاراشٹر میں کس کی حکومت بنے گی؟ کیا فڑنویس کو فوراً اکثریت ثابت کرنی ہوگی؟ کیا مہاراشٹر کے گورنر کے ذریعہ فڑنویس کو وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف دلانا مناسب تھا؟ ان سبھی سوالوں کا جواب منگل کی صبح ملے گا۔

سپریم کورٹ
سپریم کورٹ
user

قومی آوازبیورو

مہاراشٹر میں سیاسی اتھل پتھل جاری ہے اور سپریم کورٹ میں پیر کے روز انتہائی اہم سماعت ہوئی۔ سبھی فریقین کی زبردست دلیلوں کے دوران سپریم کورٹ نے صبر کے ساتھ سبھی کی بات سنی اور طے کیا کہ اب منگل کی صبح 10.30 بجے اس معاملے میں فیصلہ سنایا جائے گا۔ جسٹس این وی رمنّا نے کہا کہ ’’میں کل صبح 10.30 بجے اس پر حکم جاری کروں گا۔‘‘

پیر کو ہوئی سماعت میں سالیسیٹر جنرل نے گورنر کو ملے خطوط کو پیش کیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں فریقین کے وکیلوں نے اپنی اپنی بات رکھی۔ کپل سبل، ابھشیک منو سنگھوی نے شیوسینا-این سی پی کی پیروی کی جب کہ اجیت پوار کی طرف سے ایڈووکیٹ منندر سنگھ پیش ہوئے۔ وہیں مکل روہتگی نے دیویندر فڑنویس کی طرف سے دلیلیں رکھیں۔ جسٹس این وی رمنا کی صدارت والی بنچ میں جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس سنجیو کھنہ بھی شامل ہیں۔


سماعت کے دوران سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ گورنر کا فیصلہ دکھانے سے پہلے وہ کیس کے منظرنامے کے بارے میں بتانا چاہیں گے۔ انھوں نے عدالت میں گورنر کی طرف سے دیویندر فڑنویس کو حکومت بنانے کے لیے دی گئی دعوت کی کاپی عدالت میں رکھی۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے 22 نومبر کو اجیت پوار کے ذریعہ گورنر کو بھیجے گئے حمایتی خط کو رکھا۔

اس دوران کانگریس، این سی پی اور شیوسینا کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے وکیلوں نے جہاں آج ہی عدالت سے اکثریت ثابت کرنے کے لیے فلور ٹسٹ کرانے کا مطالبہ کیا۔ وہیں برسراقتدار طبقہ کے وکیل نے کہا کہ فلور ٹسٹ تو ہونا ہی ہے، لیکن انھیں مزید وقت دیا جانا چاہیے۔ اسی دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے فڑنویس حکومت کو اکثریت ثابت کرنے کے لیے 14 دنوں کا وقت دیا ہے۔ جب کہ پہلے کہا جا رہا تھا کہ 30 نومبر تک حکومت کو اکثریت ثابت کرنا ہے۔


یہ بات فڑنویس کے وکیل روہتگی نے عدالت کو بتائی۔ انھوں نے کہا کہ اسمبلی کی کچھ روایتیں ہوتی ہیں۔ اسپیکر کے انتخاب کے بعد ہی فلور ٹسٹ ہو سکتا ہے۔ وہیں تشار مہتا نے کہا کہ کانگریس، این سی پی اور شیوسینا ایک وکیل پر بھی متفق نہیں ہوئے اور ان کے ذریعہ پیش کی گئی فہرست میں بھی گڑبڑی ہے، اس لیے اس معاملے میں دیویندر فڑنویس کے حق میں فیصلہ دیا جانا چاہیے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ’’ہم کیا حکم دیں گے۔ یہ ہم پر چھوڑ دیا جائے۔ ہمیں پتہ ہے کہ کیا حکم دینا ہے۔‘‘

بحث کے دوران ابھشیک منو سنگھوی نے کہا کہ فلور ٹسٹ سے پتہ چلے گا جب آپ اوندھے منھ گریں گے۔ عدالت کو 48 نہیں بلکہ 24 گھنٹے میں فلور ٹسٹ کرانے کا وقت طے کیے جانے کا حکم دینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں ان باتوں پر زور نہیں دینا چاہتا، لیکن یہ باتیں اپنے آپ میں بنیاد ہیں۔ آج ہی فلور ٹسٹ ہونا چاہیے۔‘‘ سنگھوی نے کہا کہ دونوں فریق فلور ٹسٹ کو صحیح بتا رہے ہیں تو پھر اس میں تاخیر کیوں؟ اس کے علاوہ کپل سبل نے کہا کہ ’’رات میں سب طے ہوا۔ فلور ٹسٹ دن کے اجالے میں ہو۔‘‘


اس دوران ابھشیک منو سنگھوی نے کہا کہ فوراً پروٹیم اسپیکر کی تقرری ہو۔ میرے پاس این سی پی کے 48 اراکین اسمبلی کی حمایت ہے۔ ایوان میں جلد فلور ٹسٹ ہونا چاہیے کیونکہ دونوں فریق اس کے لیے تیار ہیں۔ بحث کے دوران کپل سبل نے کچھ سنگین سوال اٹھائے۔ انھوں نے پوچھا کہ آخر گورنر نے کس کے کہنے پر صدر راج ہٹایا؟ فلور ٹسٹ سے اعتراض کیوں؟ کابینہ نے کب صد رراج ہٹانے کی منظوری دی؟ انھوں نے بھی ایوان میں فوراً فلور ٹسٹ کرائے جانے کا مطالبہ کیا۔ شیوسینا کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے پوچھا کہ ’’ایسی کیا قومی ایمرجنسی تھی کہ صدر راج کو صبح 5.17 بجے ختم کر کے صبح 8 بجے حلف دلایا گیا؟ صدر راج کو صبح 5.17 بجے ہٹایا گیا جس کا مطلب ہے کہ 5.17 بجے سے پہلے سب کچھ ہوا۔

اجیت پوار کے وکیل منندر سنگھ نے کہا کہ ’’اگر بعد میں کوئی صورت حال بنی ہے تو اسے گورنر دیکھیں گے۔ اسے ان کے اوپر چھوڑا جائے۔ عدالت اس میں مداخلت کیوں کرے۔‘‘ منندر سنگھ نے کہا کہ جو چٹھی گورنر کو دی گئی ہے وہ قانونی طور پر صحیح ہے۔ پھر تنازعہ کیوں؟‘‘


لیکن تشار مہتا نے دلیل دی کہ ’’انھیں فکر ہے کہ اراکین اسمبلی بھاگ جائیں گے۔ انھوں نے ابھی کسی طرح انھیں پکڑا ہوا ہے۔ اسمبلی کی کارروائی کیسے چلے گی؟ عدالت کو اس میں مداخلت کرنے سے بچنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’’گورنر کو فلور ٹسٹ کے لیے مدت کار طے کرنے کو نہیں کہا جا سکتا۔ یہ گورنر کا اختیار ہے۔ ان کے قدم کو غلط سوچ سے متاثر نہیں کہا جا سکتا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی مکل روہتگی نے بھی کہا کہ فلور ٹسٹ کب ہوگا اسے طے کرنے کا اختیار گورنر کے پاس ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ ’’کیا عدالت اسمبلی کے ایجنڈے کو طے کر سکتی ہے؟‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔