انتخابی تجزیہ: ہندی بیلٹ میں کانگریس کا ووٹ فیصد بڑھا بی جے پی کا گھٹا

چھتیس گڑھ، راجستھان و مدھیہ پردیش تینوں ہی ریاستوں میں بی جے پی کو حاصل ووٹ فیصد نے اس کے زوال کی داستان بیان کر دی ہے، ساتھ ہی کانگریس میں لوگوں کے اعتماد کو بھی ظاہر کر دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

پورے 24 گھنٹے کی اٹھا پٹخ کے بعد سبھی پانچ ریاستوں میں حکومت سازی سے متعلق دھند صاف ہو چکا ہے۔ کانگریس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ بی جے پی حکمراں سبھی تین ریاستوں میں برسراقتدار ہونے کا راستہ صاف کر لیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی نے بھی حکومت سازی کا دعویٰ کر دیا ہے۔ لیکن 230 اسمبلی سیٹوں والی اس ریاست میں کانگریس کا 114 سیٹ حاصل کرنا اور بی ایس پی کا کسی بھی حال میں بی جے پی کو حمایت نہ دینے کا اعلان صاف ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت سازی کی کوشش ’گھمنڈ‘ کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ بی جے پی ترجمان تو راجستھان کے رجحانات میں کانگریس کو مضبوط دیکھ کر بھی بار بار یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ پانسہ پلٹے گا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

بہر حال، پورے ملک کی نظریں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے نتائج پر ٹکی ہوئی تھیں۔ چھتیس گڑھ میں تو کانگریس نے بی جے پی کا ’سوپڑا‘ صاف کر دیا جب کہ راجستھان میں اکثریت سے محض ایک سیٹ پیچھے رہ گئی۔ لیکن آر ایل ڈی کے ذریعہ کانگریس کو حمایت کا اعلان کیے جانے کے بعد بی جے پی لیڈران بغلیں جھانکنے پر مجبور ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے نے بھی شکست قبول کرتے ہوئے کانگریس کو مبارکباد دینے میں ہی عافیت سمجھی۔ پانچ ریاستوں کانگریس کے لیے میزورم اور تلنگانہ سے اچھی خبر نہیں آئی۔ میزورم میں جہاں ایم این ایف (میزو نیشنل فرنٹ) نے 26 سیٹ کے ساتھ اکثریت حاصل کر لی وہیں تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی کارکردگی نے لوگوں کو حیران کر دیا۔ چونکہ تلنگانہ میں پہلی مرتبہ اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں اس لیے کسی کی کارکردگی کا گزشتہ مرتبہ کی کارکردگی سے موازنہ کرنا ممکن نہیں، لیکن بقیہ چار ریاستوں میں یہ موازنہ قابل دید ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس ریاست میں کانگریس نے خود کو کتنا مضبوط کیا ہے اور بی جے پی کس طرح زوال کی طرف گامزن ہے۔

چھتیس گڑھ:

چھتیس گڑھ میں پوری طرح سے ہوا کانگریس کے حق میں نظر آئی۔ 15 سالہ رمن حکومت کا یہ زوال صرف ریاست میں بی جے پی کا زوال نہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی بی جے پی سے لوگوں کی مایوسی کا اظہار ہے کیونکہ برسراقتدار پارٹی محض 15 سیٹوں تک محدود رہ گئی۔ کانگریس نے یہاں 68 سیٹیں حاصل کیں۔ یہاں کانگریس نے 43 فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ بی جے پی کو 33 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ اس 10 فیصد ووٹ کے فرق نے کانگریس کو آسمان پر بٹھا دیا اور بی جے پی کو زمین پر پٹخ دیا۔ 2013 میں ہوئے چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات کے نتائج سے موجودہ نتائج کا موازنہ کیا جائے تو کانگریس کو تقریباً 3 فیصد ووٹوں کا فائدہ ہوا ہے جب کہ بی جے پی کو 8 فیصد ووٹوں کا نقصان ہوا ہے۔ پچھلی بار کانگریس نے 39 جب کہ بی جے پی نے 49 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس نے ریاست میں خود کو مضبوط تو کیا ہی ہے، اس سے کہیں زیادہ بی جے پی نے اپنی شبیہ عوام کے درمیان خراب کی ہے۔

راجستھان:

کانگریس کے لیے راجستھان میں کامیابی حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم ثابت نہیں ہوا۔ یہاں بی جے پی نے اپنی پوری طاقت لگا دی تھی اور باضابطہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ان علاقوں میں انتخابی تشہیر کرائی گئی تھی جہاں کانگریس کے مسلم امیدوار جیتتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ہندو-مسلم کو تقسیم کرنے اور فرقہ پرستی کا زہر گھولنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن ریاست کے بیدار عوام نے کانگریس کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ 200 اسمبلی سیٹوں والی اس ریاست میں 199 سیٹوں پر انتخابات ہوئے تھے جس میں کانگریس کو 99 سیٹ حاصل ہوئے۔ حالانکہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے یہاں 199 میں 100 سیٹوں کی ضرورت ہے لیکن کانگریس کے لیے یہ مشکل کام نہیں ہے کیونکہ آر ایل ڈی اور اب بی ایس پی نے بھی حمایت دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ بی جے پی یہاں 73 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ ووٹ فیصد کی بات کی جائے تو کانگریس کو 39.3 جب کہ بی جے پی کو 38.8 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ 2013 میں بی جے پی نے 45.17 اور کانگریس نے 33.07 فیصد ووٹ کے ساتھ بالترتیب 163 اور 21 سیٹ حاصل کیے تھے۔ گویا کہ کانگریس کا ووٹ فیصد میں 6 فیصد اضافہ اور بی جے پی کے 6 فیصد زوال نے پوری کہانی بدل دی۔

مدھیہ پردیش:

230 اسمبلی سیٹوں والی ریاست مدھیہ پردیش میں کانگریس اکثریت سے محض 2 سیٹ پیچھے رہ گئی۔ اسے 114 سیٹ حاصل ہوئے جب کہ بی جے پی کو 109 سیٹ ملا۔ بہوجن سماج پارٹی نے بدھ کے روز کانگریس کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے جس کے پاس 2 اراکین اسمبلی ہیں۔ ایک رکن اسمبلی والی سماجوادی پارٹی نے پہلے ہی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس طرح کانگریس بہ آسانی حکومت بناتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ یہاں لوگوں کا جو غصہ شیوراج سنگھ چوہان اور بی جے پی کی مرکزی حکومت کے خلاف تھا وہ کافی حد تک نظر آیا۔ حالانکہ بی جے پی نے ’سام، دام، دنڈ، بھید‘ ہر ہتھیار کا استعمال کامیابی کے لیے کیا لیکن اپنی شکست کو روک نہیں سکی۔ 2013 میں 165 سیٹ حاصل کرنے والی بی جے پی کا ووٹ فیصد بھی 44.88 فیصد سے گھٹ کر 41 فیصد ہو گیا۔ کانگریس کا ووٹ فیصد 36.38 سے بڑھ کر 40.9 ہو گیا۔

میزورم:

کانگریس کے لیے میزورم کا نتیجہ تکلیف دہ ثابت ہوا جہاں اس کی سیٹ 34 سے گھٹ کر 5 پہنچ گئی۔ یہاں ایم این ایف نے 26 سیٹ کے ساتھ حکومت سازی کا دعویٰ پیش کر دیا ہے۔ یہاں کانگریس کے ووٹ فیصد میں بھی گزشتہ اسمبلی انتخابات کے مقابلے کافی گراوٹ محسوس کی گئی جو کہ 44.63 سے گھٹ کر 30.2 پر پہنچ گئی۔ ایم این ایف کی کارکردگی قابل تعریف رہی جس نے 2013 میں 28.65 ووٹ فیصد کے مقابلے اس مرتبہ 37.6 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ لیکن کانگریس کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ریاستی ایشوز ایسے تھے جس نے ایم این ایف کو فائدہ پہنچایا اور یقیناً اس نتیجہ کا اثر آئندہ عام انتخابات پر پڑتا ہوا محسوس نہیں ہو رہا ہے۔ ویسے بھی بی جے پی کی میزورم میں کوئی پہچان نہیں ہے جس سے کانگریس کا 2019 عام انتخابات میں سیدھا مقابلہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Dec 2018, 11:07 AM