لو جہاد کے بعد نشہ جہاد کا شوشہ: کیرالہ کے پادری کس کے آلۂ کار ہیں؟... سہیل انجم

پادری کے اس الزام پر جہاں ریاستی وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ منشیات اگر کہیں استعمال ہو رہی ہے تو اس کو مذہب سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔

تصویر ٹوئٹر
تصویر ٹوئٹر
user

سہیل انجم

لیجیے جناب! اب ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ ابھی تک ہم لوگ لو جہاد ہی سنتے آئے تھے یا پھر ایک شرانگیز نام نہاد صحافی نے سول سروس جہاد کا شوشہ چھوڑا تھا، لیکن اب نشہ جہاد کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ شوشہ ایک ایسے شخص نے چھوڑا ہے کہ اس مذہب اور منصب کے لوگوں سے ایسی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس الزام کے بعد کہ مسلمان غیر مسلموں کے خلاف نشہ جہاد چھیڑے ہوئے ہیں، سیاسی حدت بڑھ گئی ہے اور بی جے پی کو یہ لگنے لگا ہے کہ اسے اس انتخابی موسم میں ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔ حالانکہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس الزام میں کتنی صداقت ہے یا اس کے پیچھے کسی سیاسی جماعت، تنظیم یا گروہ کا ہاتھ ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ بی جے پی اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

کیرالہ کے ایک کیتھولک پادری جوزف کلارنگٹ نے کوٹایم ضلع کے ایک گرجا گھر میں خطاب کرتے ہوئے الزام عاید کیا کہ اس وقت کیرالہ میں دو قسم کا جہاد چل رہا ہے۔ ایک لو جہاد اور دوسرا نشہ جہاد۔ ان کے مطابق اس نشہ جہاد کے ذریعے غیر مسلم نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنا کر ان کی زندگی تباہ کرنے کی سازش رچی گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سخت گیر جہادیوں کے آئس کریم پارلرس، ہوٹلوں اور جوس کارنروں میں کئی قسم کی منشیات کا استعمال ہو رہا ہے۔ وہ غیر مسلم نوجوانوں کی زندگی تباہ کرنے کے لیے منشیات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔


انھوں نے کافی ہفوات بکی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اس الزام پر جہاں ریاستی وزیر اعلیٰپنارائی وجین نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ منشیات اگر کہیں استعمال ہو رہی ہے تو اس کو مذہب سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔ ان کے بقول پہلی بار نشہ جہاد کی بات سننے میں آئی ہے۔ اگر یہ مسئلہ ہے بھی تو اس سے کسی ایک خاص مذہب کے لوگ ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ تمام مذاہب کے لوگ متاثر ہوں گے۔ اگر واقعی ایسا کچھ ہے تو یہ غیر سماجی سرگرمی ہے مذہبی نہیں۔ جبکہ کانگریس نے بھی پادری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اسی طرح مسلم تنظیموں کی جانب سے بھی اس بیان کی مذمت کی جا رہی ہے۔ ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ ان کے اس بیان سے ریاست کیرالہ میں اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے تاکہ کیرالہ جیسی ریاست میں بھی مذہبی تفرقہ پیدا کرکے عوام کو جذباتی بنیاد پر تقسیم کیا جا سکے۔

اگر ہم غور کریں تو پادری کا الزام واضح طور پر بے بنیاد نظر آتا ہے۔ اگر واقعی مسلمانوں کی جانب سے چلائے جانے والے آئس کریم پارلرس، ہوٹلس اور جوس کارنرس میں منشیات کا استعمال ہو رہا ہے تو اس سے تو سبھی متاثر ہوں گے۔ پادری نے یہ نہیں بتایا کہ کیا ان جگہوں پر یہ لکھا ہو ا ہے کہ یہاں صرف غیر مسلموں کے داخلے کی اجازت ہے مسلمانوں کے داخلے کی نہیں۔ یا یہ لکھا ہوا ہے کہ مسلمان ان جگہوں سے کوئی چیز نہ خریدیں۔ ظاہر ہے آئس کریم صرف غیر مسلم ہی نہیں کھاتے مسلمان بھی کھاتے ہیں۔ جوس صرف ہندو ہی نہیں پیتے مسلمان بھی پیتے ہیں۔ اور جہاں تک ہوٹلوں میں منشیات کے استعمال کی بات ہے تو ہندو تو مسلم ہوٹلوں میں جاتے ہی نہیں یا جاتے ہیں تو بہت کم۔ مسلم ہوٹلوں کے گاہک تو مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر ایسا کوئی جہاد چل رہا ہے تو اس سے تو سب سے زیادہ مسلمان ہی متاثر ہوں گے۔


لیکن بی جے پی کو بیٹھے بٹھائے ایک بہترین ہتھیار مل گیا۔ یہ بات رکھنی چاہیے کہ حالیہ دنوں میں اختتام پذیر ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کیرالہ کی ریاست بھی شامل تھی اور بی جے پی نے وہاں بائیں بازو کی حکومت کے خاتمے اور اپنی حکومت کے قیام کے لیے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن اس کی تمام چالیں ناکام ہو گئی تھیں۔ بائیں بازو یعنی ایل ڈی ایف نے دوبارہ اقتدار میں واپسی کی تھی۔ بی جے پی اس شکست کو ابھی تک ہضم نہیں کر پائی ہے۔ اسی لیے جوں ہی پادری کا یہ بیان سامنے آیا بی جے پی کی طرف سے اسے لپک لیا گیا۔

مرکزی وزیر اور سینئر بی جے پی رہنما مرلی دھرن نے بائیں بازو اور کانگریس دونوں پر حملے کیے ہیں اور ان سے سوال پوچھا ہے کہ وہ بتائیں کہ کیا وہ آئی ایس آئی ایس کے ترجمان ہیں۔ اس سے پہلے انھیں یہ بتانا چاہیے کہ کیا مذکورہ پادری بی جے پی کے ترجمان ہیں جو انھوں نے ایسا بیان دیا۔ انھیں اس الزام کے ثبوت میں حقائق پیش کرنے چاہئیں۔ لیکن ابھی تک انھوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ اگر کہیں پر منشیات کا استعمال ہو رہا ہے تو انھیں چاہیے تھا کہ وہ حکومت کو باخبر کرتے۔ لیکن انھوں نے اسے جہاد کا نام دے کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔


جہاں تک لو جہاد کا معاملہ ہے تو آج تک اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔ جب بھی اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں سوال کیا گیا تو حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ لو جہاد نامی کوئی اصطلاح ہے ہی نہیں اور یہ کہ ا س کے پاس اس سلسلے میں کوئی ڈیٹا ہی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود جب بھی انتخابات کا موقع آتا ہے لو جہاد کا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور اب تو پادری صاحب نے ایک نئی اصطلاح گھڑ دی ہے۔ انھوں نے اس الزام کی بنیاد پر بی جے پی کے ہاتھوں کو مضبوط کیا ہے اور مذہب کے نام پر سماج میں خلیج پیدا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

اس سے پہلے بھی کیرالہ میں لو جہاد کے معاملات اٹھائے گئے تھے اور مسلم نوجوانوں پر ہندو لڑکیوں کو محبت کے دام میں پھانس کر شادی کرنے اور پھر ان کا مذہب تبدیل کرانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ جب ایک 24 سالہ طالبہ اکھیلا نے اسلام کا مطالعہ کیا اور پھر قبول اسلام کرنے کے بعد اپنا نام ہادیہ رکھا اور ایک مسلم نوجوان شافعین جہاں سے شادی کی تو لو جہاد کے پروپیگنڈے کی دھار تیز ہو گئی تھی۔ چونکہ اس قسم کے واقعات کیرالہ میں زیادہ ہوئے تھے اس لیے سپریم کورٹ کے حکم پر این آئی نے 89 بین مذاہب شادیوں کی ایک فہرست بنائی اور ان میں سے گیارہ کی تحقیقات کی تو اسے لو جہاد کا کوئی ثبوت ہی نہیں ملا۔


اس کا کہنا ہے کہ اس کے نزدیک اب یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے اور وہ اس بارے میں عدالت میں مزید کوئی رپورٹ داخل نہیں کرے گی۔ این آئی اے کے مطابق تمام شادیوں میں ایک مشترکہ پہلو یہ نکلا کہ ایک سماجی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے اہلکار ایسے معاملات میں شامل رہے ہیں۔ لیکن ان کے خلاف بھی ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ قانونی کارروائی کی جا سکے۔ این آئی اے کے اہلکاروں کے مطابق کیرالہ میں تبدیلی مذہب جرم نہیں ہے اور جن مردوں یا عورتوں نے تبدیلی مذہب کی وہ آئین کے دائرے میں کی۔ اس طرح لو جہاد کے الزام کے غبارے کی ہوا نکل گئی تھی۔

لیکن اب ایک بار پھر اس غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس بار نمک مرچ لگا کر نشہ جہاد کا بھی شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ بات صرف اتنی سی نہیں ہے بلکہ اس میں ایک پادری صاحب کود پڑے ہیں۔ حالانکہ سنگھ پریوار یا ہندوتوا نواز تنظیموں کی جانب سے عیسائیوں پر ہندووں کا مذہب تبدیل کرانے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پادری صاحب نے ایسے کسی الزام سے بچنے کے لیے مسلمانوں پر ہی الزام لگا دیا اور لو جہاد کے ساتھ ساتھ نشہ جہاد کی بات کرکے انھوں نے تبدیلی مذہب کے معاملے کو مسلمانوں کی جانب موڑنے کی کوشش کی ہے۔ بہر حال جو بھی ہو یہ الزام بہت خطرناک ہے، اس سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ماحول بنے گا اور اس کا فائدہ بی جے پی اٹھائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔