کیا 7 ریس کورس روڈ پر امریکی وزیر اعظم رہتے ہیں؟

مودی جب وزیر اعلیٰ تھے تو بیرون ممالک سے آنے والے لوگوں میں زیادہ تعداد امریکہ سے آنے والے لوگوں کی ہوتی تھی۔ آخرایسا کیوں ہے کہ وزیر اعظم مودی امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں کو زیادہ ترجیح دیتے تھے۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

آشیش رے

امریکہ کی نریندر مودی پر نظر بہت پہلے سے تھی۔ مودی جب آ ر ایس ایس کے ایک معمولی پرچارک تھے، تبھی امریکہ کی وزارت خارجہ نے انہیں اپنے اخراجات پر امریکہ بلایا تھا۔ بلانے کے لئے بہانا تھا بین الاقوامی ایکسچینج پروگرام ۔کہا جاتا ہے کہ شروع میں ہندوستان کے ایک سابق خارجہ سکریٹری کی صدارت والی انتخابی کمیٹی نے جب اس پروگرام کے لئے مودی کے نام کو خارج کر دیا، تو اس وقت ہندوستان میں امریکہ کے سفیر نے ان کے نام کی سفارش کی اور انہیں ایک فیلوشپ کے نام پر امریکہ بھیجا گیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مودی گجرات کے وزیر اعلی نہیں بنے تھے۔ یہ بھی چرچے کا موضوع رہا ہے کہ مودی کے وزیر اعلی ٰبننے کے بعد گجرات آنے والے امریکیوں اور امریکی اداروں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد میں زبر دست اضافہ ہوا تھا۔

تشہیر میں امریکہ کا طور طریقہ، امریکہ اور امریکی کمپنیوں کو رجھانے کی کوشش کرنا جتنا مودی کرتے ہیں اتنا کسی بھی وزیر اعظم نے اس سے پہلے تاریخ میں نہیں کیا ۔ اس سے یہ دعویٰ مضبوط ہوتا ہے کہ امریکہ کا جتنا اثر ہندوستان پر آج ہے، اتنا کبھی نہیں رہا۔ اس سب کے باوجود اس پر کوئی بحث نہیں ہوتی کہ دہلی کا امریکی سیٹلائٹ بن جانا ہندوستان کے کتنے حق میں ہے ؟ کیا اس سے ہندوستان کی سلامتی کو خطرہ ہے یا نہیں ؟

کانگریس سے الگ ہو کر مورارجی دیسائی1977 میں ملک کے وزیر اعظم بنے تھے اور انہوں نے جنتا پارٹی کی حکومت بنائی تھی جس میں میں آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم جن سنگھ بھی شامل تھی۔ بی جے پی کا پہلے جن سنگھ نام تھا لیکن یہ حکومت زیادہ دن نہیں چلی۔ اس حکومت کے قریب چار سال بعد1983 میں پلزر اوارڈ سے سرفراز امریکی انویسٹیگیٹو صحافی سیمور ہرش کی ایک کتاب آئی تھی، جس کا موضوع تھا ’دی پرائس آف پاور‘ ۔ اس کتاب میں ہرش نے لکھا تھا کہ جب موراجی دیسائی کانگریس حکومت میں کابینہ کے وزیر تھے، تو وہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے جاسوس تھے۔ ہرش نے لکھا موراجی دیسائی کو ہر سال 20 ہزار امریکی ڈالر دئے جاتے تھے اور وہ بدلے میں وہ سی آئی اے کو اہم معلومات دستیاب کراتے تھے۔ کتاب کے مطابق یہ سلسلہ لمبے عرصے تک چلتا رہا تھا۔

یہ ایک سنسنی خیز الزام تھا اور اس سے مورارجی دیسائی کی عزت کو گہرا دھکا لگا تھا۔ انہوں نے امریکی عدالت میں ہرش پر مقدمہ دائر کیا، لیکن وہ مقدمہ ہار گئے ۔ دیسائی ساری زندگی اس داغ کے ساتھ جئے اور سی آئی اے ایجنٹ ہونے کے الزامات کے ساتھ ہی مورارجی دیسائی اس دنیا سے چلے گئے۔

اسی قسم کا کچھ کچھ طور طریقہ آج کل 7ریس کورس روڈ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ دیسائی بھی رائٹ ونگ نظریہ سے متاثر تھے اور نریندر مودی بھی اسی نظریہ سے متاثر ہیں اور یہ تو کچھ زیادہ ہی ہیں۔ مودی اس نظریہ کو دکھانے اور اس پرعمل کرنے میں کوئی پرہیز بھی نہیں کرتے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مودی بچپن سے آر ایس ایس سے جڑ گئے تھے اور ان کی زندگی پر اس کا بہت اثر ہے۔ لوگوں میں اشتعال پیدا کرنے کی صلاحیت مودی میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اپنے اسی بالی وڈ اسٹائل کے ڈرامہ بازی سے وہ ہندی بولنے والے علاقہ کے لوگوں کو متاثر بھی کرتے ہیں اور اپنی جانب متوجہ بھی کرلیتے ہیں۔ سنگھ نے مودی کی اس صلاحیت کو خوب استعمال کیا ۔مودی دیگر آر ایس ایس کارکنان سے مختلف ہیں، خود غرض ہیں اور گھومنے کے شوقین ہیں۔ اسی گھومنے کے شوق میں وہ نہ صرف ہمالیہ پہنچے بلکہ اپنے خوابوں کے ملک امریکہ بھی پہنچے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد جب انہوں نے امریکہ جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو امریکہ نے انہیں منع کر دیا۔ امریکہ نے اشاروں میں کہا کہ ان کے اوپر گجرات2002 فساد کا الزام ہے اور ایسے شخص کو وہ ویزا نہیں دے سکتے۔ لیکن مودی کو امریکہ کے اس رویہ پر غصہ نہیں آیا اور لوک سبھا کے عام انتخابات جیتنے کے بعد سب سے پہلے وہ امریکہ جانے کے لئے بے قرار نظر آئے اور وزیر اعظم بننے کے تین ماہ کے اندر وہ امریکہ کے دورے پر تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب مودی کے سابقہ امریکی دوروں کا تذکرہ شروع ہوا اور لوگوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے امریکی دوروں کی تصویریں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ ’ٹائمس آف انڈیا ‘ نے نیو یارک کو مودی کا دوسرا گھر لکھا ۔ اخبار نے یہ بھی لکھا کہ مودی اکثر امریکہ جاتے تھےاور کئی کئی ہفتے وہاں قیام کرتے تھے اور سنگھ کے نظریہ کی تشہیر کرتے تھے۔

مودی کے آبائی شہر وڈنگر سے تعلق رکھنے والے سریش جانی آر ایس ایس کے پرانے کارکن تھے اور 1987 میں ہی امریکہ جا کر بس گئے تھے۔ مودی جب بھی امریکہ جاتے تو جرسی سٹی میں سریش جانی کے گھر میں ہی ٹھہرتے۔ جانی نے کہا تھا کہ جب مودی نے اسٹیچو آف لبرٹی پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو وہ انگشت بدنداں رہ گئے تھے۔ ان کے مطابق مودی کے دل میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا عظیم الشان مجسمہ گجرات میں بنوانے کا خیال اسی وقت آیا تھا۔

مودی نے نیو یارک کو یوں تو اپنا بنیادی کیمپ بنایا ہوا تھا لیکن وہ بوسٹن، شکاگو، انڈیانا، ٹیکساس اور کیلیفورنیا بھی گھومنے گئے تھے۔ چونکہ مودی کی پرورش آر ایس ایس کے سایے میں ہوئی تھی اس لیے ہندوستان میں ہندوتوا کا قیام ان کا مقصد اولین تھا۔ انھیں معلوم تھا کہ اسے حاصل کرنے کے لیے بی جے پی کو طویل مدت تک حکومت میں رہنا ہوگا، اور اس مقصد کو حقیقی شکل دینے کے لیے اسے وافر سہولیات درکار ہوں گی۔

یہی وجہ تھی کہ مودی جہاں بھی گئے انھوں نے نظامِ حکمرانی کے طریقوں اور بنیادی ڈھانچے کو بہت باریکی سے دیکھا اور سمجھا۔ انھوں نے یہ بھی سمجھا کہ کسی بھی مسئلہ کا حل امریکہ آخر کس طرح نکالتا ہے۔ مودی نے اسی ماڈل کو ہندوستان میں بھی آزمایا۔

امریکہ کے ذریعہ مودی کو ویزا نہ دینے کے باوجود ہند-امریکی طبقہ میں موجود مودی کے سینکڑوں خیر خواہ، ساتھیوں اور چاپلوسوں نے ان پر بھروسہ بنائے رکھا۔ ان میں سے زیادہ تر امریکی شہرت حاصل کر چکے لوگ تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انھیں معلوم تھا کہ مودی ان کے مشترکہ نظریات یعنی ہندتوا کو مضبوطی سے نافذ کر رہے ہیں۔ اسی لیے جب 2007 کے گجرات انتخابات میں ایسا لگنے لگا کہ مودی کا جیتنا مشکل ہے تو یہ سبھی ان کا ساتھ دینے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اس بارے میں لندن کے بیکر اسٹریٹ واقع ایک صلاحکار فرم نے کھل کر بات کی۔ انھوں نے کہا کہ برطانوی-گجراتی ہندو مودی کو پسند کرتے تھے اور ان کے نام پر متحد ہو گئے تھے۔

ایپکو (اے پی سی او) واشنگٹن کی ایک لابنگ فرم ہے۔ دہلی اور ممبئی میں بھی اس کے دفاتر ہیں۔ یہ فرم جن لوگوں کے لیے کام کرتی ہے ان میں امریکی ایجنسیاں، مصر، اسرائیل اور قزاخستان اور کٹرپسند رائٹ وِنگ تاناشاہ بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں میں قزاخستان کے صدر نور سلطان نذربیو خود بھی ہیں۔

2009 میں اس فرم کو وائبرینٹ گجرات کے تحت سرمایہ کاری تقریب منعقد کرنے کا گجرات میں اس وقت کی مودی حکومت نے ٹھیکہ دیا تھا۔ اس تقریب میں حصہ لینے آئے مبینہ سرمایہ کاروں کے ذریعہ گجرات حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو پورا کرنے کی جگہ اس میں شامل لوگوں، تنظیموں اور ممالک نے مودی کی تعریفوں کے پل باندھنے پر زیادہ توجہ دیا۔

اسی دور میں ’دی اکونومک ٹائمز‘ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’کاغذوں میں تو ایپکو سرمایہ کاری کے لیے گجرات حکومت کی نوڈل ایجنسی انڈسٹریل ایکسٹینشن بیورو کے لیے کام کرتا ہے، لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے لیے پبلک رلیشن کا کام کرتا ہے۔‘‘

اس کے جواب میں ایپکو نے کہا تھا کہ ’’ہم گجرات کے وزیر اعلیٰ کے لیے کام نہیں کرتے اور ہم اس سلسلے میں کچھ بولتے بھی نہیں ہیں۔‘‘ لیکن پھر بھی ایپکو کے ایک افسر نے گجرات فسادات کے معاملے میں وزیر اعلیٰ کے دفاع میں بیان دیا تھا۔ غیر ہندوستانی میڈیا کے حوالے سے ’دی اکونومک ٹائمز‘ نے لکھا تھا کہ ان کے مطابق اگر وہ مودی کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں تو ایپکو سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ مجموعی طور پر وائبرینٹ گجرات مودی کی تشہیر کا ذریعہ ہی ثابت ہوا تھا۔

ایپکو سے منسلک زیادہ تر ’لابیسٹ‘ یعنی کسی کے حق میں ماحول بنانے کا کام کرنے والے لوگ، سابق سیاستداں اور افسر تھے، جو کبھی نہ کبھی امریکی حکومت کے لیے کام کر چکے تھے۔ ان میں ایک بین الاقوامی صلاحکار کونسل بھی تھی جس میں گزشتہ بی جے پی حکومت کے دور میں خارجہ سکریٹری اور امریکہ میں ہندوستان کے سفر رہ چکے للت مان سنگھ بھی تھے۔

2007 میں ’ہارپرس‘ رسالہ نے ایک اسٹنگ آپریشن کر کے ایپکو سے ترکمانستان کے لیے ایک میٹنگ کا منصوبہ تیار کروا لیا تھا۔ لیکن بعد میں پتہ چلا تھا کہ ایپکو نے صحافیوں کو ’اَن ایتھیکل‘ قرار دیا تھا۔ صحافی طبقہ نے اس پر ناراضگی ظاہر کی تھی کہ ایپکو ایک ایسا فرم ہے جو اسٹالن وادی تاناشاہی کے ریکارڈ غالب کرنے کا ٹھیکہ لیتی ہے۔ موٹے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ بھلے ہی ایپکو نے ہندوستان میں اپنی صلاحیت ثابت کی ہو لیکن کن لوگوں کے لیے اسے کام کرنا ہے اس سلسلے میں اس کا کوئی اصول و ضوابط نہیں ہے۔

آج کے دور میں کسی کی شبیہ چمکانے کے لیے پی آر کمپنیوں کی خدمات لینا اور کئی گروپوں سے خدمات لینے کے ساتھ ہی پرکشش پالیسیاں بنانے میں مدد لینا کوئی برائی نہیں مانی جاتی۔ امریکی صدر کے ذریعہ دیے جانے والے تاریخی پندرہ روزہ ریڈیو پروگرام (جسے ٹرمپ نے بند کر دیا) کی نقل کے طور پر ’من کی بات‘ کو ہندوستان میں شروع کرنا، امریکی حکومت کی پالیسیوں پر عمل کرنا، اسرائیل کے ساتھ گلے ملنا... یہ وہ سارے قدم ہیں جو غیر ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں۔ آخر یہ سب آیا کہاں سے؟

امریکی حکومت اور اب برطانیہ بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ کسی بھی قسم کی شراکت داری کے لیے ہندوستان کے سفیروں اور ہائی کمشنروں کے بھروسے روایتی اسٹریٹجک طریقوں سے زیادہ براہ راست مودی سے بات کرنا زیادہ مفید ہے، کیونکہ وہ ایک ’پرچارک‘ رہے ہیں اور آر ایس ایس سے ان وہ سیدھے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ اس کام میں جو عناصر جڑے ہیں ان کی مقبولیت ایک ہندو سرگرمی کی ہے اور ایسے لوگ ایپکو سے بھی کہیں نہ کہیں جڑے ہوئے ہیں۔

اپنے دور اقتدار کے ساڑھے تین سال کے دوران مودی نے یہ احساس دلایا ہے کہ وہ ملک کے سوا سو کروڑ سے زیادہ ہندوستانیوں کے مقابلے بیرون ممالک میں بسے تین کروڑ ہندوستانیوں کے نمائندہ زیادہ ہیں۔ ان تین کروڑ لوگوں میں بھی نصف سے زیادہ تو غیر ملکی ہی ہیں۔ وہ ہندوستان کے لوگوں سے زیادہ غیر ممالک میں مقیم ہندوستانیوں کو ’خوش‘ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ سرمایہ کاری کے لیے ہندوستانی کمپنیوں کے مقابلے غیر ملکی کمپنیوں کو متوجہ کرنے کے لیے جی توڑ کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایپکو ایک غیر ملکی کمپنی ہے اور ممکن ہے کہ ہر امریکی کمپنی کی طرح بیرون ملک میں کام کرنے سے پہلے وہ امریکی محکمہ خارجہ سے صلاح لیتی ہو۔ اور بیرو ممالک میں واقع آر ایس ایس پرچارکوں سے مودی کا رشتہ ہندوستان میں بسے لوگوں سے کہیں زیادہ ہے۔ بیرون ممالک میں بسے آر ایس ایس پرچارکوں میں زیادہ تر غیر ملکی شہریت والے ہیں۔

ان لوگوں سے مودی کو جو بھی جانکاریاں ملتی ہوں گی، ضروری نہیں کہ وہ ملکی مفاد میں بہتر ہوں، کیونکہ ان سب کے نظریے الگ الگ ہیں۔ لیکن بدلے میں مودی ان لوگوں کو جو جانکاریاں فراہم کرتے ہوں گے وہ باعث فکر ہیں، کیونکہ مودی تو انھیں اپنا بھروسے مند تصور کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو وہ سی آئی اے ایجنٹ نہیں ہیں لیکن حکومت سے متعلق ان کا طرز عمل پیچیدہ ہے، اور کیا یہ ہندوستان کی سیکورٹی پر سوال کھڑے کرتی ہوئی نظر نہیں آتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔