نواب رامپور کی اربوں روپے کی جائیداد کا تنازعہ، 5 نئے دعویدار سامنے آگئے

ریاست رامپور کی تمام املاک کی فہرست تیار کی جا رہی تھی۔ ان میں شاہی محلات، بندوقیں، اسلحہ، گاڑیاں اور زیورات شامل ہیں۔ اسی دوران 5 نئے دعویدار سامنے آ گئے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

اترپردیش کی ریاست رامپور ان دنوں شاہی خاندان میں تقسیم کے تنازعہ کے سبب زیرِ بحث ہے۔ برسوں سے جاری تقسیم کے تنازعہ پر سپریم کورٹ کے حکم کے بعد یہ لگنے لگا تھا کہ معاملہ اب حل ہو گیا ہے لیکن اب اس اربوں کی املاک کے 5 نئے دعویدار سامنے آگئے ہیں اور معاملہ پھر الجھ گیا ہے۔ ان پانچ دعویداروں نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ نواب رامپور کی املاک کے 16 وارثان میں ان کے ناموں کو بھی شامل کرے۔

واضح رہے کہ ریاست رامپور کی بنیاد روہیلا افغانوں نے سن 1774 میں رکھی تھی۔ 18ویں اور 19ویں صدیوں میں برطانوی راج کے دوران بھی ریاست خود کا وجود قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔ جب 1947 میں ملک آزاد ہوا تو ریاست رامپور 1949 میں جمہوریہ ہند میں شامل ہونے والی پہلی ریاست بن گئی، اس وقت ریاست رامپور کے حکمران نواب رضا علی خان تھے۔ نواب رضا علی خان 1966 میں انتقال کر گئے۔ ان کی تین بیویوں سے 3 بیٹے اور 6 بیٹیاں تھیں۔ بڑے بیٹے نواب مرتضیٰ علی خان ان کے جانشین بنے اور حکومت نے ان کو تسلیم کر لیا۔


لیکن جلد ہی نواب خاندان میں وراثت کی جنگ شروع ہو گئی۔ مرتضیٰ علی خان کے چھوٹے بھائی ذوالفقار علی خان نے معاملہ کو عدالت تک پہنچا دیا۔ ذوالفقار کی شادی بیگم نور بانو سے ہوئی تھی۔ عدالت کو اب اس نقطہ پر فیصلہ کرنا تھا کہ املاک کی تقسیم مسلم شریعت کے اصولوں سے ہوگی یا پھر شاہی خاندان کے تخت شاہی پر بیٹھنے کے اصولوں سے!

تقریباً 47 سالوں تک معاملہ عدالت میں چلتے ہوئے سپریم کورٹ تک جا پہنچا اور 2019 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ شریعت کے مطابق تمام بیٹے اور بیٹیوں کو قانونی وارث سمجھا جائے۔ اس طرح سے سپریم کورٹ نے 16 جانشینوں کا انتخاب کیا۔ نیز سپریم کورٹ نے معاملے کو حل کرنے کے لئے دسمبر 2020 کی تاریخ مقرر کی۔


ریاست رامپور کی تمام املاک کی فہرست تیار کی جا رہی تھی۔ ان میں شاہی محلات، بندوقیں، اسلحہ، گاڑیاں اور زیورات شامل ہیں۔ اس دوران 5 نئے دعویدار سامنے آ گئے۔ یہ پانچ دعویدار نواب کی چھوٹی بہن نوابزادی کلثوم بیگم یا ننہی بیگم کی اولادیں ہیں۔ ان میں سیرت علی خان، صنم علی خان، سائرہ علی خان اور مہر النسا بیگم شامل ہیں۔ ان سب کا کہنا ہے کہ جب ان کی دادی (ننہی بیگم) صرف 10 سال کی تھیں، تو ان کے والد کی وفات ہو گئی، لہذا وہ اپنے حقوق سے محروم ہو گئیں۔ ان سبھی کی عرضیاں ضلعی عدالت میں خارج کر دی گئیں۔ اس کے بعد یہ لوگ سپریم کورٹ جانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔

نواب رامپور کے پاس اسلحہ، ہیرے اور زیورات کے علاوہ امپورٹڈ کاروں کا قافلہ بھی تھا۔ عدالت کی فہرست کے مطابق نواب کی بیش قیمتی کاروں کی تعداد 16 ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب نواب ان کاروں پر سوار ہو کر چلتے تھے تو شہر میں پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا۔ سروے میں قیمتی ہتھیاروں کا بھی انکشاف ہوا ہے، جن کی تعداد ایک ہزار بتائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ کوٹھی کے مالخانہ میں 60 کلو سونا، ہیروں کا تاج، سونے چاندی کے برتن، سونے کے علم اور بہت سی قیمتی چیزیں موجود ہیں، جن کے حوالہ سے سروے کیا جا رہا ہے۔


سپریم کورٹ نے رامپور کے ضلع جج کو شریعت کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد ضلعی جج نے جائیداد کے سروے اور جائزہ کے لئے ایڈووکیٹ کمشنر مقرر کیا، جو عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کرتے رہے ہیں۔ نواب خاندان کے پاس علیشان کوٹھیاں بھی موجود ہیں، ان میں کوٹھی خاص باغ، کوٹھی بے نظیر اور کوٹھی لکھی باغ شامل ہیں۔ ان کی تشخیص کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جا چکی ہے۔ نواب کا اپنا ایک ریلوے اسٹیشن بھی ہے اور اس کی بھی تشخیص کی رپورٹ پیش کی جا چکی ہے۔ ان کی غیر منقولہ جائداد کی قیمتوں کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی ہے۔ تاہم اراضی کی رپورٹ آنا باقی ہے، اس اراضی کی قیمت کئی ہزار کروڑ بتائی جاتی ہے۔ اس معاملہ کی سماعت منگل کے روز ہونا تھی لیکن ضلع جج کے ریٹائرمنٹ اور نئے ضلع جج کی تقرری کے باعث سماعت ملتوی کر دی گئی، اب اگلی سماعت 13 اکتوبر کو ہونی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔