سماجی فلاح کے منصوبوں اور انتخابی ریوڑیوں میں فرق، پارٹیوں کی منظوری رد کرنا جمہوری نہیں ہوگا: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے آج اس عرضی کو ماننے سے انکار کر دیا جس میں ایسی سیاسی پارٹیوں کی منظوری رد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو انتخابی ’ریوڑیوں‘ کے وعدے کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

ایشلن میتھیو

سپریم کورٹ نے آج اس عرضی کو ماننے سے انکار کر دیا جس میں ایسی سیاسی پارٹیوں کی منظوری رد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو انتخابی ’ریوڑیوں‘ کے وعدے کرتے ہیں۔ اس کی جگہ عدالت نے کہا کہ وہ معاملے کی گہرائی سے جانچ چاہتا ہے۔ کیس کی آئندہ سماعت اب 17 اگست کو ہوگی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس کرشن مراری کی بنچ نے کہا کہ وہ سیاسی پارٹیوں کی منظوری رد کرنے کے حلقہ اختیار میں رخنہ نہیں ڈالنا چاہتے کیونکہ یہ غیر جمہوری ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ ’آخر کار ہم ایک جمہوریت ہیں‘۔

سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کی اس عرضی پر سماعت کے دران سامنے آیا جس میں انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ انتخابی ’ریوڑیوں‘ کے اعلانات کو باضابطہ کیا جائے۔ عرضی میں مطالبہ تھا کہ عدالت اس بارے میں گائیڈلائنس جاری کرے کہ سیاسی پارٹیوں کے منشوروں کو قانون کے تحت لایا جائے اور انتخابی وعدوں کے لیے پارٹیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔


جسٹس رمنا نے کہا کہ جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں انھیں ایسا کرنے کا اختیار ہے، کیونکہ وہ ٹیکس دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے ٹیکس کے پیسے سے ترقیاتی کام ہوں اور انفراسٹرکچر مضبوط کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ ایک سنگین ایشو ہے۔ ایسے میں دونوں فریقین کی بات کمیٹی کو سننی چاہیے۔ لیکن کسی پارٹی کی منظوری اس بنیاد پر ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔‘‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں غریبی بھی ہے اور مرکزی حکومت بھوکے لوگوں کو کھانا مہیا کرانے کا انتظام کرتی ہے۔ اس پر مرکزی حکومت کی طرف سے پیش سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ مفت کی ریوڑیوں سے اسے حاصل نہیں کیا سکتا۔ اس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ ’’سماجی فلاح کے منصوبے اور ریوڑیوں میں فرق ہے۔‘‘


اس معاملے میں عدالت کی دعوت پر اپنی رائے رکھتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے ایک مثال پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ ایک پیچیدہ ایشو ہے اور اس کے لیے ہمارے پاس اعداد و شمار ہونے چاہئیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اگر میری کوئی ملازمہ بس یا میٹرو میں سفر کے لیے مجھ سے پیسے کا مطالبہ کرتی ہے اور میں اسے دے دیتا ہوں، لیکن بعد میں مجھے وہ بتاتی ہے کہ اسے تو مفت میں سفر کرنے کا موقع ملا کیونکہ خواتین کے لیے سفر مفت تھی۔ تو، کیا اسے ریوڑی مانا جائے گا؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ایشو کے بارے میں فیصلہ تبھی ہو سکتا ہے جب ہمارے پاس اعداد و شمار ہوں کہ اس سے کیا فرق پڑ رہا ہے۔

اس ضمن میں چیف جسٹس این وی رمنا نے بھی ایک قصہ سنایا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’میرا داماد زراعت کرتا ہے اور حکومت نے بجلی کنکشن پر پابندی لگا دی ہے اور وہ اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا اس بارے میں کچھ کیا جا سکتا ہے، تو میں نے کہا کہ یہ پالیسی پر مبنی معاملہ ہے۔ میں اپنے گھر میں طے منصوبہ کے علاوہ ایک بھی اینٹ نہیں لگا سکتا، لیکن میرا پڑوسی آرام سے کئی نئی منزلیں بنا لیتا ہے، بعد میں وہ منزلیں مستقل ہو جاتی ہیں۔ تو اس سے ہم کیا پیغام دے رہے ہیں۔‘‘ اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے کپل سبل نے کہا کہ دہلی میں غریبوں کے مکان توڑے جا رہے ہیں، جب کہ پورا کا پورا فوجی فارم غیر قانونی ہے اور اس پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔


معاملے میں مرکزی حکومت کی طرف سے پیش سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ بہت سے انتخابی وعدے منشور کا حصہ نہیں ہوتے، لیکن انتخابی ریلیوں اور تقریروں میں ان کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ان سے کسے فائدہ ملے گا، اس کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ مہتا نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک ایسی کمیٹی نہیں بن جاتی جس میں سبھی اسٹیک ہولڈرس اور اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ نیتی آیوگ کے رکن بھی ہوں، تب تک عدالت کچھ گائیڈلائنس جاری کر سکتی ہے۔ لیکن جسٹس این وی رمنا نے کہا کہ ’’اس بارے میں قانون بنانا درست نہیں ہوگا، اور یہ ویسے بھی ہمارے حلقہ اختیار کو آگے پھیلانا ہوگا۔‘‘ انھوں نے سبھی فریقین سے ایک تجویز جمع کرنے کو کہا۔ پھر انھوں نے کہا کہ ’’26 اگست کو میرے ریٹائرمنٹ سے پہلے اگر تجاویز آ جائیں تو بہتر ہوگا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔