دہلی والے عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کی ’تو تو میں میں‘ سے تنگ آ چکے ہیں

بی جے پی حامیوں کا یہ کہنا کہ اگر دلتوں اور اقلیتوں نے کانگریس کو ووٹ دیا تو اس کا نقصان عآپ کو ہوگا، جبکہ عآپ کا یہ کہنا کہ اگر دہلی والوں نے کانگریس کو ووٹ دیا تو اس سے بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

سید خرم رضا

دہلی اسمبلی انتخابات کے حوالے سے عوام کی اکثریت کا ماننا ہے کہ اس بار سہ رخی مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ دلت سماج اور اقلیتوں کو ان انتخابات کو سہ رخی بنانے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ سماج واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم نظر آ رہا ہے۔ ایک جانب نریندر مودی کے حامی ہیں، جبکہ دوسری جانب اُن کے مخالفین۔ مودی مخالف طبقہ اس قدر مشتعل ہے کہ اُن کی نظر میں بدعنوانی کوئی اہم مسئلہ نہیں رہ گیا۔ وہ مودی مخالفت میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی کو قبول کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں، چاہے انہیں اس کے لیے مبینہ ’شیش محل‘ کے جواب میں ’راج محل‘ کی دہائی دینی پڑے یا ایکسائز گھوٹالے کی حمایت کرنی پڑے۔

شروع میں انتخابی تشہیر کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ یہ انتخابی لڑائی شیش محل اور راج محل کی لڑائی تک ہی محدود رہے گی یعنی عام آدمی پارٹی اور بی جے ی کے درمیان ہی رہے گی لیکن دھیرے دھیرے اب دہلی کا ایک بڑا طبقہ انتخابات کو سہ رخی کہنے لگا ہے۔ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی اپنے انتخابی مفاد کے لئے کانگریس کو انتخابات کو سہ رخی بنانے کے لئے ذمہ دار مان رہی ہے۔ بی جے پی حامیوں کا یہ کہنا کہ اگر دلتوں اور اقلیتوں نے کانگریس کو ووٹ دیا تو اس کا نقصان عام آدمی پارٹی کو ہوگا اور عام آدمی پارٹی کا یہ کہنا کہ اگر دہلی والوں نے کانگریس کو ووٹ دیا تو اس سے بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا۔


عام آدمی پارٹی کی پیدائش ہی کانگریس کی مخالفت سے ہوئی تھی یعنی جو بی جے پی چاہتی تھی وہ کام عام آدمی پارٹی نے ہی کیا تھا اور وہ چاہتی ہے کہ یہ کام ہمیشہ ایسے ہی چلتا رہے اور یہ ملک کانگریس سے پاک ہو جائے۔ ایسا ہو سکتا تھا اگر عام آدمی پارٹی نظریاتی طور پر کانگریس کے اصولوں کو اپنا لیتی اور وہ بھی ان رائے دہندگان کا خیال رکھتی جنہوں نے اس کے حق میں اپنی رائے کا اظہار بڑھ چڑھ کر کیا تھا۔ عام آدمی پارٹی نے اس کے برعکس کام کیا اور وہ دھیرے دھیرے بی جے پی کے رنگ میں نظر آنے لگی چاہے وہ سی اے اے اور این آر سی احتجاج ہو، مشرقی دہلی کے فسادات ہوں یا پھر کووڈ وبا کے دوران تبلیغی جماعت کے مرکز کو اپنا ہدف بنانا ہو۔ کووڈ وبا کے دوران تو دہلی حکومت نے بی جے پی کی آواز میں آواز ملانی شروع کر د تھی جب اس نے تبلیغی جماعت کے مرکز کو کووڈ وبا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا۔

دہلی کی عام آدمی پارٹی حکومت جس کو دہلی کے عوام نے کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کر کے اقتدار سونپا تھا اس نے بہت جلد اپنے اور بی جے پی کے درمیان ایک لکیر کو بھی پار کر لیا اور حد تو اس وقت ہو گئی جب اس نے ایک شکائتی خط موہن بھاگوت کو لکھ دیا اور پجاریوں و گرنتھیوں کو 18 ہزار روپے دینے کا وعدہ بھی کر لیا یعنی اس نے اپنا اصل رنگ ظاہر کر دیا اور بی جے پی کے جیسی بن گئی۔

دہلی کے عوام بالخصوص دلت اور اقلیت، جو مودی مخالف ہیں، ان کے دماغ میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ مودی کی بی جے پی کو اگر ہرانا ہے تو عام آدمی پارٹی کو اپنا ووٹ دینا ہے لیکن وہ اب اس حقیقت پر بھی غور کر رہے ہیں کہ ان کے لئے تو کچھ ہو ا ہی نہیں جو کچھ بھی ہوا ان کے ووٹ سے عام آدمی پارٹی کو ہی فائدہ ہوا۔ دہلی کے عوام کو شیلا دکشت کا دور یاد آنے لگا، جس میں دہلی والوں کے مسائل حل ہوتے تھے اور اس کا بڑا فائدہ کانگریس کو ہوتا نظر آ رہا ہے۔


دہلی کے یہ انتخابات جو سہ رخی نظر آ رہے ہیں ان کا دھیرے دھیرے کانگریس اور بی جے پی کی لڑائی میں تبدیل ہونے کا امکان ہے کیونکہ اس مرتبہ دہلی کے عوام نے مرکز اور ریاست کی حکومتوں کی کارکردگی دیکھ لی ہے اور ان کی ترجیحات بھی دیکھ لی ہیں، ساتھ میں ان کو راہل کی کانگریس میں بھی نئی توانائی نظر آ رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ کانگریس نے ابھی تک امیدواروں کی جو فہرست جاری کی ہے اور جن عوامی مسائل کی وہ بات کر رہی ہے ان میں وزن نظر آ رہا ہے۔ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کو تو تو میں میں کی لڑائی سے باہر آ کر عوام کے مسائل پر بات کرنی چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔