ریپبلک اور ٹائمز ناؤ سے عدالت نے مانگا جواب، کہا ’لوگ نیوز چینلوں سے خوفزدہ ہیں‘

دہلی ہائی کورٹ نے پیر کے روز نیوز چینلوں سے نیوز رپورٹنگ پیمانوں میں اصلاح لانے کے لیے کہا۔ عدالت نے کہا کہ لوگ پریس سے ڈرے ہوئے ہیں اور دوردرشن کا دور موجودہ دور سے بہتر تھا۔

دہلی ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
دہلی ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
user

روی پرکاش

نیوز چینلوں پر خبروں کو سنسنی خیز انداز میں پیش کیے جانے پر عدالتی سختی بڑھتی جا رہی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے پیر کے روز نیوز چینلوں سے نیوز رپورٹنگ پیمانوں میں اصلاح کرنے کے لیے کہا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ لوگ پریس سے ڈرے ہوئے ہیں اور دوردرشن کا دور موجودہ دور سے زیادہ بہتر تھا۔ جسٹس راجیو شکدھر نے اس تعلق سے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’لوگوں میں پریس کے بارے میں ڈر پھیل گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر بڑی ہستیوں کی پرائیویسی کا ایشو کمزور بھی کریں تو بھی آپ (نیوز چینل) ان کی پرائیویٹ زندگی کو پبلک سیکٹر میں نہیں کھینچ سکتے۔‘‘ عدالت نے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے بلیک اینڈ وہائٹ دوردرشن کا دور بہت بہتر تھا۔‘‘

عدالت نے کہا کہ آج کل جس طرح کی نیوز رپورٹنگ ہو رہی ہے، اس طریقے کو بدلنے کے نظام کے بارے میں بھی نیوز چینلوں سے سوال کیا۔ اس نے پوچھا ’’یہاں تک کہ ہنرمند اور تعلیم یافتہ دماغ بھی اس طرح کی غلط رپورٹنگ سے متاثر ہوتے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کہ ہمیں اس کا حل کیسے نکالنا چاہیے؟‘‘


یہ تبصرہ اس وقت کیا گیا جب عدالت چار بالی ووڈ ایسو سی ایشنز اور 34 فلمسازوں کے ذریعہ ریپبلک ٹی وی اور ٹائمز ناؤ کی بالی ووڈ ہستیوں کے خلاف رپورٹنگ پر لگام کسنے کے لیے داخل عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔ بالی ووڈ ایسو سی ایشنز نے دونوں چینلوں کے ذریعہ کی گئی رپورٹنگ اور بالی ووڈ ہستیوں کے خلاف کیے گئے تبصروں کو غیر ذمہ دارانہ اور بے عزتی پر مبنی قرار دیا تھا۔

بنچ نے کہا کہ یہ نیوز چینلوں کو خبروں کو دکھانے سے نہیں روک رہا ہے، لیکن صرف انھیں ذمہ دار صحافت کو آگے بڑھانے کے لیے کہہ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ ’’ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ آپ ایسی خبروں کو دکھا نہیں سکتے، لیکن ہم (صرف) آپ کو ذمہ دار صحافت کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔‘‘ عدالت نے چینلوں کو یہ بھی تنبیہ دی کہ اگر وہ پروگرام کوڈ پر عمل نہیں کرتے ہیں تو عدالت کو ’نافذ‘ کرنا ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔