دہلی میں مدرسہ کے طالب علم کا قتل، مذہبی جنون کی زد میں راجدھانی!

دہلی میں مدرسہ کے طالب علم محمد عظیم کا دوسرے طبقہ کے بچوں نے قتل کر دیا، حملہ آور بچوں کے طبقہ سے وابستہ بڑے لوگ بھی وہاں موجود تھے لیکن انہوں نے عظیم کو نہیں بچایا بلکہ حملہ آوروں کو اکسایا۔

تصویر بشکریہ ’دی وائر ہندی‘
تصویر بشکریہ ’دی وائر ہندی‘
user

قومی آوازبیورو

جمعرات کے روز (25 اکتوبر) دہلی کے بیگم پور میں ایک مدرسہ کے طالب علم کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔ بیگم پور جامع مسجد سے ملحقہ مدرسہ جامعہ فریدیہ کے 8 سالہ طالب علم محمد عظیم کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ باہر کھیل رہا تھا۔ عظیم کو بری طرح زد و کوب کرنے کے بعد موٹر سائیکل پر پٹخ دیا گیا، جس سے وہ بیہوش ہو گیا اور پھر وہ اپنی آنکھ کبھی نہ کھول سکا۔

پولس کے مطابق قتل کے الزام میں نزدیکی والمیکی بستی کے چار نابالغ بچوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ سبھی کی عمر 12 سے 13 سال کے درمیان بتائی جا رہی ہے۔ پولس نے آئی پی سی کی دفعہ 302 کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔ ڈی سی پی (ساؤتھ) وجے کمار نے کہا کہ ملزم بچوں کو اصلاح اطفال کے مرکز (جونائل ہوم) میں بھیجا جائے گا۔

ملک میں اس وقت منافرت کا ماحول ہے۔ مفاد کے لئے عام لوگوں کو ایندھن کی طرح استعمال کر کے لاشوں پر ووٹوں کی سیاست کا چلن عام ہو گیا ہے۔ قومی راجدھانی دہلی بھی نفرت کے شعلوں سے خود کو بچا نہیں پا رہی ہے۔ ہندو شرپسند اپنے آقاؤں کی شہ پر مسلمانوں کو کسی نہ کسی طرح اکسانے پر آمادہ ہیں۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں ہندو شرپسندوں نے مسلمانوں کو اکسانے کے لئے کئی حربے استعمال کئے۔ منڈوالی علاقہ کی مسجد پر ہنگامہ آرائی اور مشتعل ہجوم کے ذریعہ نعرے بازی کی گئی، موہن گارڈن کے قبرستان پر مسلم طبقہ کو تدفین کرنے سے روکا گیا، جور باغ درگاہ کی زمین پر پوجا کرنے کی کوشش کی گئی اور صفدر جنگ انکلیو کے ہمایوں پور میں ایک مقبرے کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا۔

دی وائر ہندی نے بیگم پور میں مدرسہ کے طالب علم قتل کے واقعہ پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ دی وائر کو عظیم کے ساتھ پڑھنے والے 12 سالہ محمد انس نے بتایا کہ جس وقت واقعہ پیش آیا مدرسہ کے زیادہ تر طالب علم قرآن کی تلاوت کے لئے باہر گئے ہوئے تھے۔

انس نے کہا، ’’جو چھوٹے بچے تھے وہ مدرسے کی زمین پر کھیل رہے تھے، بغل کی والمیکی بستی سے کچھ بچے آئے اور اسے پیٹنے لگے، ان میں سے ایک نے عظیم کو پٹائی کے دوران ایک موٹر سائیکل پر پٹخ دیا، جس کے بعد وہ بیہوش ہوگیا۔ جب اسے اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔‘‘

عظیم کے دو بڑے بھائی بھی بیگم پور کے جامعہ فریدیہ میں زیر تعلیم ہیں۔ تینوں بھائی ہریانہ کے میوات سے وابستہ ہیں اور ریٹھیٹ گاؤں کے رہنے والے ہیں، ان کا خاندان میوات میں ہی رہتا ہے۔ عظیم کے والد خلیل احمد (41) مزدوری کر کے اپنے خاندان کی پرورش کرتے ہیں۔

عظیم کے والد خلیل احمد نے کہا، ’’جمعرات کو میرے پاس فون آیا کہ میرا بیٹا کھیلتے ہوئے گر کر بیہوش ہو گیا ہے۔ میں جب یہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کی موت ہو چکی ہے، عظیم ہمارا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور سب کا لاڈلا بھی تھا، آخر میرے بیٹے کا قصور کیا تھا؟‘‘

جامعہ فریدیہ کے مہتمم مولانا محمد علی نے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک دن کی لڑائی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ بغل کی بستی کے لوگ لگاتار ہمیں پریشان کرتے رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دہلی: موب لنچنگ میں مدرسہ کے 8 سالہ طالب علم کی موت

مولانا نے کہا ’’یہ معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ بڑا حادثہ ہے، یہ لوگ ہمیں ہمیشہ سے تنگ کرتے آئے ہیں لیکن اب تو انتہا ہو چکی ہے۔ یہ لوگ بغل کی بستی کے لوگوں کو اکسا کر لائے اور میدان میں کھیل رہے بچوں پر پتھر پھینکنے لگے۔ وہ بچوں کو گالیاں دے رہے تھے، تو بچوں نے پوچھا گالیاں کیوں دے رہے ہو۔ اس پر بستی کے لوگوں نے عظیم کی پٹائی شروع کر دی اور ان میں سے ایک نے اسے موٹر سائیکل پر پٹخ دیا اور وہ بیہوش ہو گیا۔‘‘

مولانا محمد علی نے مزید کہا ’’یہ سروج نامی خاتون اور اس کے شوہر کاکو کی کرتوت ہے، وہ لوگ بستی کے بچوں کو پریشان کرنے کے لئے لوگوں کو اکساتے ہیں۔ ان لوگوں نے 8-10 دن پہلے بھی مدرسہ کے کچھ بچوں کو پیٹا تھا، یہ لوگ مدرسہ کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، اس لئے مدرسہ کی زمین پر غلط کام کرتے ہیں، یہاں شراب اور گانجا پیتے ہیں اور خالی بوتلوں کو درگاہ میں پھینک دیتے ہیں۔‘‘

قتل کے الزام میں حراست میں لئے گئے بچے مالویہ نگر کے ایک سرکاری اسکول میں زیر تعلیم ہیں اور ان کی ماں دوسرے گھروں میں کام کرتی ہے اور والد مزدوری کرتے ہیں۔ ملزمان بچوں کی ماؤوں کا کہنا ہے کہ واقعہ کے وقت وہ اپنے اپنے کام پر گئی ہوئی تھیں، واقعہ کی اصل وجہ کیا تھی انہیں معلوم نہیں ہے۔

ایک ملزم کی ماں باداما دیوی نے کہا، ’’ہماری بچے پہلے بھی وہاں کھیلا کرتے تھے لیکن کبھی جھگڑا نہیں ہوا، ہمیں نہیں معلوم لڑائی کس بات پر ہوئی۔ واقعہ کا ہمیں افسوس ہے، ہمیں عظیم کی موت کا دکھ ہے۔‘‘

والمیکی بستی کی سروج نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا، ’’ہم 10 سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ہمیں اس معاملہ میں پھنسایا جا رہا ہے، میں اعتراف کرتی ہوں کہ مدرسہ کی زمین پر لوگ شراب-گانجا پیتے ہیں اور جوا بھی کھیلتے ہیں لیکن ہمارا معاملہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘

مدرسہ کے ایک بچے نے بتایا کہ پٹائی کے بعد دو حملہ آور بچوں کو مدررسہ کے کچھ لوگوں نے پکڑ لیا تھا لیکن سروج انہیں چھڑا کر لے گئی تھی، سروج نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ وہاں موجود ہی نہیں تھی۔

مدرسہ کے ایک طالب علم نے بتایا کہ جب بچے عظیم کو پیٹ رہے تھے تو وہاں موجود کچھ لوگ ملزمان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے، وہ لوگ گالیاں دینے کے لئے ہمارے کپڑوں اور ٹوپیوں پر طنز کر رہے تھے اور ہمارے مذہب کے تعلق سے گالیاں دے رہے تھے۔‘‘

علاقہ میں لگے ایک کیمرے سے ملے سی سی ٹی وی فوٹیج میں بچوں کے درمیان لڑائی دیکھی جا سکتی ہے لیکن وہاں موجود دیگر لوگ ان بچوں کے درمیان ہورہی لڑائی کی مفاہمت نہیں کر رہے ہیں بلکہ تماش بین بنے ہوئے ہیں۔

پولس کے مطابق جانچ چل رہی ہے اور دونوں طرف کے لوگوں کے الزامات کی تفتیش کی جاری ہے۔ پولس کے مطابق نظم و نسق کی صورت حال برقرار رکھنے کے لئے مدرسہ اور والمیکی بستی میں پولس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے، پولس سی سی ٹی وی فوٹیج کو کھنگال رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Oct 2018, 11:09 AM