بہار: کانگریس کی انتخابی حکمت عملی، مضبوطی سے واپسی کی تیاری

راجیش کمار کو ریاستی صدر مقرر کیے جانے اور کرشنا الّاورُو کو انچارج کی ذمہ داری سونپنے کے بعد تبدیلی زمینی سطح پر نظر آ رہی ہیں

<div class="paragraphs"><p>آئی اے این ایس</p></div>
i
user

وشو دیپک

پٹنہ میں کسی بھی راہ چلتے شخص سے صداقت آشرم کا راستہ پوچھیں تو زیادہ امکان ہے کہ وہ اجنبی نگاہوں سے دیکھے، جیسے اسے اس جگہ کا علم ہی نہ ہو۔ یہ آشرم بہار پردیش کانگریس کمیٹی کا صدر دفتر ہے، لیکن 1990 میں آخری کانگریسی وزیر اعلیٰ ستیندر نارائن سنہا کے انتخاب ہارنے کے بعد سے یہ ویران سا پڑا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی آشرم میں لالو پرساد یادو کو جنتا دل کے لیڈر کے طور پر منتخب کیا گیا تھا اور وہ پہلی بار وزیر اعلیٰ بنے تھے۔

صداقت آشرم کا ماضی بے حد شاندار ہے۔ یہ کبھی ایک باغ تھا، جسے اس کے مالک خیرو میاں نے مجاہدِ آزادی مولانا مظہر الحق کو عطیہ کر دیا تھا۔ مظہر الحق ایک بیرسٹر تھے اور چمپارن تحریک کے دوران مہاتما گاندھی کے قریب تھے۔ انہوں نے یہاں بہار ودیا پیٹھ قائم کی، جس کا تصور گاندھی جی نے ایک قومی تعلیمی ادارے کے طور پر کیا تھا، جو حکومتی کنٹرول سے آزاد ہو۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں آزادی کے متوالے رہنما جمع ہوتے تھے۔ گاندھی جی اور کستوربا بھی یہیں قیام پذیر رہے تھے۔ آزادی کے بعد پہلے صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے بھی سبکدوشی کے بعد یہیں قیام کیا تھا۔

آج کے سیاسی منظرنامے میں اگرچہ میڈیا کانگریس کو کمزور دکھا رہا ہے، لیکن بہار میں پارٹی میں نئی جان پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ 1980 اور 1990 کے درمیان کانگریس اقتدار میں رہی اور پانچ وزرائے اعلیٰ دیے، جو سبھی اعلیٰ ذاتوں سے تھے—جگن ناتھ مشرا، چندر شیکھر سنگھ، بندیشوری دوبے، بھاگوت جھا آزاد اور ستیندر نارائن سنہا۔ انتخاب سے کچھ پہلے پارٹی نے جگن ناتھ مشرا کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بنایا، لیکن ناکامی مقدر رہی۔ اب فضا کچھ مختلف نظر آ رہی ہے۔ پارٹی سے منسلک تنظیمیں احتجاج میں سرگرمی سے حصہ لے رہی ہیں اور عوام کے درمیان اپنا اثر بڑھا رہی ہیں۔ کنہیا کمار کی قیادت میں ’پلاین (ہجرت) روکو-روزگار دو‘ مہم سرخیوں میں ہے۔

دہلی سے ٹرین اور پھر سڑک کے ذریعے سمستی پور تک کے سفر کے دوران لوگوں سے بات چیت میں تقریباً سبھی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بہار میں کانگریس کا دلت صدر مقرر کرنا محض علامتی نہیں بلکہ ایک عملی قدم ہے۔ پارٹی کو امید ہے کہ وہ ریاست کے تقریباً چھ فیصد روی داس دلتوں میں اپنی مضبوط پکڑ بنا سکتی ہے، جو پاسوان، پاسی اور مانجھی برادری کے مقابلے میں سیاسی طور پر کم آواز اٹھاتے ہیں۔ راجیش کمار روی داس سماج سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب میں نے عہدہ سنبھالنے سے ایک دن قبل صداقت آشرم میں ان سے ملاقات کی تو وہ جذباتی ہو کر رو پڑے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ لمحہ بہار کانگریس کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے۔‘‘


کچھ پرانے کانگریسی لیڈروں کو ان کی صلاحیت پر شک تھا۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ راجیش کمار پارٹی کے داخلی دھڑوں اور چیلنجوں سے نمٹ سکیں گے۔ تاہم، راجیش نے پر سکون لہجے میں کہا، ’’میرے پاس 35 سال کا سیاسی تجربہ ہے۔ 1985 سے میں سیاست اور عوامی مسائل سے جڑا رہا ہوں اور سیاسی بحث و مباحثے کو سمجھنے کا شعور رکھتا ہوں۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>پٹنہ میں ’ینگ انڈیا کے بول‘ کے انعامی تقسیم پروگرام کا منظر (تصویر بشکریہ: @IYC)</p></div>

پٹنہ میں ’ینگ انڈیا کے بول‘ کے انعامی تقسیم پروگرام کا منظر (تصویر بشکریہ: @IYC)

'ینگ انڈیا کے بول' مہم: نوجوانوں کی آواز کو پلیٹ فارم

کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے 15 فروری کو یوتھ کانگریسی رہنما کرشنا الّاورو کو بہار کا انچارج مقرر کیا تھا۔ الّاورو نرم گفتار اور خوش اخلاق شخصیت کے مالک ہیں لیکن ان کی قیادت میں پارٹی میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ وہ کئی اضلاع کا دورہ کرکے کارکنان سے ملاقات کر چکے ہیں اور تنظیم کو مضبوط بنانے کے لیے متحرک نظر آ رہے ہیں۔

الّاورُو ’ینگ انڈیا کے بول‘ مہم کے بھی روحِ رواں ہیں، جس کا پانچواں سیشن پٹنہ میں منعقد ہوا۔ یہ مہم کئی سالوں سے خاموشی کے ساتھ جاری تھی، جس کا مقصد ہندی، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں نوجوان ترجمانوں کی تلاش اور تربیت تھا۔ اس مہم کے تحت خواہش مند انڈین یوتھ کانگریس (آئی وائی سی) کی ایپ پر اپنی ویڈیوز جمع کراتے ہیں۔ منتخب امیدواروں کو مباحثے میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>(تصویر بشکریہ: @IYC)</p></div>

(تصویر بشکریہ: @IYC)

انعامی تقریب کے دوران کرشنا الّاورو نے کہا، ’’اب پارٹی ترجمان بننے کے لیے سینئر لیڈروں کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ میں صلاحیت ہے، پارٹی کے نظریات کو سمجھتے ہیں اور مدلل انداز میں بات کر سکتے ہیں تو آپ کو موقع ملے گا۔‘‘

کنہیا کمار کی قیادت میں نوجوانوں کی آواز

کنہیا کمار کی قیادت میں بہار میں کانگریس کی ’پلاین روکو-روزگار دو‘ مہم جاری ہے، جس نے کافی توجہ حاصل کر لی ہے۔ اس مارچ میں تقریباً 100 نوجوان شامل ہیں، جنہوں نے مخصوص وردی پہن رکھی ہے، جو عوام میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ ان میں سے بیشتر وہ نوجوان ہیں جو 2019 اور 2021 کے درمیان فوج میں بھرتی کے لیے سخت امتحانات میں کامیاب ہوئے تھے، لیکن انہیں تقرری نہیں دی گئی۔ پہلے اس میں تاخیر کا سبب کورونا وبا کو بتایا گیا، بعد میں انہیں ’اگنی ویر‘ اسکیم کے تحت شامل ہونے کو کہا گیا، جو عارضی ملازمت ہے۔ اب یہ نوجوان حکومت کو جگانے کے لیے تھالیاں پیٹتے ہوئے سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ ان میں کئی دوسرے ریاستوں سے بھی ہیں۔

چمپارن یوتھ ستیہ گرہ کے بینر تلے یہ مارچ 14 اپریل کو امبیڈکر جینتی کے موقع پر پٹنہ میں کنہیا کمار کی یاترا کے ساتھ ختم ہوگا۔ مارچ میں شامل اوڈیشہ کے نٹوا مانجھی نے کہا، ’’مودی حکومت نے ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ ہم فوج میں مستقل تقرری کے لیے منتخب ہوئے تھے، ہم اگنی ویر اسکیم کے تحت بھرتی ہو کر کیوں مطمئن ہو جائیں؟‘‘ لکھی سرائے کے روی نے کہا، ’’2019 اور 2022 کے درمیان مجھے فوج میں منتخب کیا گیا تھا، لیکن آج تک تقرری نہیں ہوئی۔ حکومت ہمیں محض وعدوں سے بہلانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘


<div class="paragraphs"><p>پٹنہ میں آر جے ڈی رہنما عبدالباری صدیقی کے گھر منعقدہ افطار میں لالو یادو، رابڑی دیوی، تیجسوی یادو سمیت کئی رہنما شریک ہوئے (تصویر بشکریہ: @yadavtejashwi)</p></div><div class="paragraphs"></div>

پٹنہ میں آر جے ڈی رہنما عبدالباری صدیقی کے گھر منعقدہ افطار میں لالو یادو، رابڑی دیوی، تیجسوی یادو سمیت کئی رہنما شریک ہوئے (تصویر بشکریہ: @yadavtejashwi)

وقف ترمیمی بل تنازعہ اور سیاسی افطار

سیاسی حلقوں میں وقف ترمیمی بل پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ رمضان کے دوران رہنماؤں، وزیروں، ارکانِ اسمبلی اور ارکانِ پارلیمنٹ کی افطار پارٹیوں میں بھی یہ موضوع زیرِ بحث رہا۔ 2023 میں ہونے والے ذات پات کے سروے کے مطابق بہار میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 18 فیصد ہے۔ ایسے میں بی جے پی موجودہ پارلیمانی اجلاس میں وقف بل کو پاس کرانے کے لیے کوشاں ہے، جسے انتخابات کے تناظر میں ایک اہم مدعا سمجھا جا رہا ہے۔

اس دوران آر جے ڈی کے سینئر رہنما عبدالباری صدیقی نے اپنی افطار پارٹی میں لالو پرساد یادو، رابڑی دیوی اور تیجسوی یادو کو مدعو کیا۔ اس موقع پر کئی رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ بل پاس ہو گیا تو مودی حکومت وقف املاک پر قبضہ کر سکتی ہے۔ جالے اسمبلی حلقے سے ٹکٹ کے خواہشمند ایک نوجوان رہنما نے کہا، ’’لاکھوں لوگ اپنی روزی روٹی کے لیے وقف املاک پر انحصار کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد وقف زمین پر چھوٹی دکانیں یا ورکشاپس چلاتے ہیں۔ ان کا خوف بے بنیاد نہیں ہے۔‘‘

کانگریس کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ پارٹی نے پارلیمنٹ میں اور باہر اس بل کی مخالفت کی ہے، لیکن بہار میں اس مسئلے پر زیادہ جارحانہ رویہ اپنانے سے بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر ہم اس معاملے پر بہار میں بھرپور احتجاج کرتے ہیں تو بی جے پی اس کا سیاسی فائدہ اٹھا کر ہندو ووٹوں کا پولرائزیشن کر سکتی ہے۔‘‘ سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ وقف بل بہار میں انتخابی منظرنامے کو اسی طرح متاثر کر سکتا ہے جیسے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں آئین اور ریزرویشن پر ہونے والی بحث نے کیا تھا۔ تاہم، کوئی نہیں جانتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔