چھتیس گڑھ: کانگریس کی سوشل انجینئرنگ نے ’مایا وتی-جوگی‘ اتحاد کی ہوا نکالی

قبائلی اور شیڈول کاسٹ کی کل 39ریزرو سیٹوں کو دیکھتے ہوئے چھتیس گڑھ میں مایاوتی اور اجیت جوگی نے اتحاد بنایا تھا۔ لیکن کانگریس نے ستنامی سماج کے گرو بال داس کو کانگریس میں شامل کر اتحاد کی ہوا نکال دی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

چھتیس گڑھ میں 32 فیصد قبائلی اور 12 فیصد شیڈول کاسٹ کی آبادی کو اپنے حق میں کرنے کے لیے بی ایس پی اور جوگی کے اتحاد کو کانگریس کی سوشل انجینئرنگ نے کمزور کر دیا ہے۔ کانگریس نے عین موقع پر ستنامی سماج کے گرو بال داس کو اپنی طرف ملا کر مایا-جوگی اتحاد کے منصوبوں کو ناکام کر دیا ہے۔

چھتیس گڑھ کے کل 90 اسمبلی سیٹوں میں سے 29 سیٹیں قبائلیوں اور 10 سیٹیں شیڈولڈ کاسٹ کے لیے ریزرو ہیں۔ موجودہ اسمبلی میں شیڈولڈ کاسٹ کی 10 میں سے 9 سیٹیں بی جے پی کے پاس ہیں جب کہ ایک کانگریس کے حصے میں ہے۔ قبائلیوں اور شیڈولڈ کاسٹ کی کل 39 ریزرو سیٹوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہی چھتیس گڑھ میں مایاوتی اور اجیت جوگی نے اتحاد کیا تھا۔ لیکن کانگریس نے ستنامی سماج کے گرو بال داس کو کانگریس میں شامل کر اس اتحاد کی ہوا نکال دی۔

2013 کے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی نے 15 سیٹوں پر گرو بال داس کی ستنام سینا کے امیدوار کو میدان میں اتارا تھا جس کی وجہ سے کانگریس 10 سے 15 سیٹوں پر 5 ہزار سے 10 ہزار ووٹوں تک سے پیچھے رہ گئی تھی۔ اس بار کے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی نے گروہ بال داس کو اپنی طرف کرنے کی کوشش کی تھی اور بی جے پی صدر امت شاہ نے اپنی مہم ’سمپرک فار سمرتھن‘ کے تحت گرو بال داس سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت گرو بال داس نے کوئی بیان نہیں دیا تھا۔ لیکن ریاست پر انتخابی رنگ چڑھتے ہی انھوں نے بی جے پی پر وعدہ خلافی کا الزام عائد کرتے ہوئے کانگریس کے ساتھ جانے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت وہ پوری طرح کانگریس کے ساتھ اور کانگریس صدر راہل گاندھی کے عوامی جلسوں میں اسٹیج پر نظر آتے ہیں۔ گزشتہ انتخاب میں بی جے پی نے گرو بال داس کو ہیلی کاپٹر مہیا کرایا تھا اور اپنے حق میں تشہیر کرائی تھی۔ لیکن اس بار یہی داؤ کانگریس نے کھیل دیا ہے۔

کانگریس نے بستر کے معاملہ میں بھی ایسا ہی کیا۔ اس علاقے میں کانگریس نے طویل مدت سے کانگریس سے باہر رہے سابق مرکزی وزیر اروند نیتام کے علاوہ ان قبائلی لیڈروں کی بھی واپسی کرا لی جو کبھی جوگی کے رویے سے ناراض تھے۔ غور طلب ہے کہ بستر میں پانچویں اور چھٹی شیڈول کی اصلی لڑائی اروند نیتام ہی لڑتے رہے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں پہلے مرحلہ کی ووٹنگ میں قبائلیوں کی زمین سے لے کر نکسل واد، اور پانچویں شیڈول کا ایشو چھایا رہا۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہوئی ہے کہ انتخاب سے صرف تین مہینے پہلے بنی اجیت جوگی کی جنتا کانگریس پارٹی اور مایاوتی کی بی ایس پی کے اتحاد کے امیدوار ہی کانگریس اور بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس سے سیاسی تجزیہ نگاروں کے وہ سارے اندازے غلط ہوتے نظر آ رہے ہیں جس کے تحت اس اتحاد سے کانگریس کو نقصان ہوتا نظر آ رہا تھا۔ پہلے دور کی ووٹنگ تک سیاسی حالات بتا رہے ہیں کہ دوسرے دور کی ووٹنگ کی تاریخ آتے آتے یہ اتحاد زمین پر گرتی ہوئی نظر آنے لگے گی۔

حالانکہ کھیرا گڑھ، دُرگ، بھانو پرتاپ پور، تخت پور، کوٹہ، اکلترا جیسی عام سیٹوں پر یہ اتحاد سہ رخی لڑائی کی حالت بناتی نظر آ رہی ہے۔ لیکن سیٹیں جیتنے کی حالت میں اب بھی نظر نہیں آ رہی۔ رہا سوال یہ کہ یہ اتحاد نقصان کس کا کر رہا ہے؟ تو اب تک کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس اتحاد کی موجودگی سے بی جے پی کو زیادہ نقصان ہو رہا ہے، کیونکہ 15 سال کی اقتدار مخالف لہر صاف نظر آ رہی ہے۔

اس کے علاوہ بلاس پور کی چندر پور، جیجے پور، اکلترا، پام گڑھ، سارنگڑھ جیسی سیٹوں پر پہلے سے ہی بی ایس پی کا ٹھیک ٹھاک اثر ہے۔ 1998 کے انتخاب میں بی ایس پی نے سب سے زیادہ تین سیٹیں یہیں سے جیتی تھیں۔ لیکن 2008 میں وہ صرف دو اور 2013 میں صرف ایک سیٹ پر محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ مزیدار بات یہ ہے کہ بی ایس پی نے جن سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی وہ ساری سیٹیں جنرل درجہ کی تھیں۔

اس بار کے انتخاب میں اجیت جوگی نے اپنی بہو رِچا جوگی کو جانجگیر ضلع کی اکلترا سیٹ سے بی ایس پی کے انتخابی نشان پر میدان میں اتارا ہے۔ جب کہ ان کی رکن اسمبلی بیوی رینو جوگی اور وہ خود اپنی گھریلو پارٹی کے امیدوار کی شکل میں کوٹہ اور مرواہی سے انتخابی میدان میں ہیں۔

اِدھر بی ایس پی کے ریاستی صدر نواگڑھ سیٹ سے تیسری بار میدان میں ہیں۔ مایا-جوگی اتحاد کے امیدوار وسائل کی کمی میں نہ صرف پست ہو گئے ہیں بلکہ کانگریس اور بی جے پی کے دروازے جا رہے ہیں۔ مثلاً سرائے پالی کے بی ایس پی امیدوار چھبی لال راترے نے ریاستی کانگریس صدر بھوپیش بگھیل کے جلسۂ عام میں کانگریس میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری طرف ڈونگرگاؤں اسمبلی کی امیدوار جمنا بائی بی جے پی میں چلی گئی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔