دھروہر سیریز: ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ کے خلاف نیتاجی سبھاش چندر بوس پر ڈاکومنٹری جاری

کانگریس کے سوشل میڈیا سیل چیف روہن گپتا کا کہنا ہے کہ ’’آزاد ہند فوج میں ایک نہرو بریگیڈ بھی تھی، گویا کہ نیتا جی اور نہرو میں کوئی نااتفاقی نہیں تھی۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کانگریس کے ذریعہ بدھ کی شب ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ کے خلاف ’دھروہر‘ سیریز کے تحت نیتا جی سبھاش چندر بوس پر ایک خصوصی ڈاکومنٹری جاری کی گئی۔ کانگریس نے اس کے ساتھ ہیش ٹیگ ’دیش کی دھروہر‘ لگایا ہے اور اپنے سبھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جاری کیا ہے۔ کانگریس نے ساتھ ہی واضح کیا ہے کہ اس ویڈیو سیریز کا انتخابات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سیریز کا حصہ ہے جسے کانگریس جدوجہد آزادی میں پارٹی کے تعاون پر بنا رہی ہے۔

کانگریس کے سوشل میڈیا سیل کے سربراہ روہن گپتا نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ ’’یہ ویڈیو سیریز بی جے پی کی جھوٹی تشہیر کا مقابلہ کرنے کے لیے ہے، کیونکہ بی جے پی ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ کے ذریعہ چیزوں کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہی ہے، اور اس لیے پارٹی عوام کے سامنے صحیح چیزوں کو رکھ رہی ہے۔‘‘


کانگریس نے ویڈیو سیریز جاری کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’’تقسیم کرنے والی اور نفرت پھیلانے والی طاقتوں نے ہمیشہ ہندوستان کے نظریات- ہمارے اٹوٹ اتحاد، ہماری آئینی برابری، ترنگے کے تئیں ہماری مکمل خودسپردگی کی بے عزتی کی ہے۔ لیکن چاہے جو بھی ہو جائے، ہم ان پر جیت حاصل کریں گے۔‘‘

روہن گپتا نے بتایا کہ آزاد ہند فوج میں ایک نہرو بریگیڈ بھی تھی، جس کا مطلب ہے کہ نیتا جی اور پنڈت جواہر لال نہرو میں کوئی نااتفاقی نہیں تھی۔ بی جے پی تاریخ کو اپنے فائدے کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کر رہی ہے۔ یہ نیتاجی ہی تھے جنھوں نے گاندھی جی کو سب سے پہلے ’راشٹرپتا‘ کہا تھا۔


حالانکہ مغربی بنگال الیکشن سے پہلے بی جے پی نیتا جی سبھاش چندر بوس کے نام سے فائدہ اٹھانے کی پرزور کوشش کرنے میں لگی ہے اور مانا جا رہا ہے کہ کانگریس بھی اس کا کاؤنٹر کرنے کے لیے دلائل کے ساتھ تیار ہے۔ واضح رہے کہ مغربی بنگال میں 27 مارچ سے آٹھ مراحل میں الیکشن کرانے کا اعلان ہو چکا ہے۔ ریاست میں برسراقتدار ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سیاسی گھمسان اپنے عروج پر ہے۔ اس درمیان کانگریس لیفٹ پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے میدان میں اتر رہی ہے جس سے مقابلہ سہ رخی ہونے والا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔