نومنتخب نائب صدر رادھاکرشنن کو کانگریس صدر کھڑگے نے پیش کی مبارکباد، جئے رام رمیش کا رد عمل بھی آیا سامنے
کھڑگے نے کہا کہ یہ ایک انتخاب سے کہیں بڑھ کر تھا۔ یہ نظریاتی جنگ تھی، جس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہمارے آئین اور جمہوریت کی حفاظت کے لیے آمرانہ رجحانات والی حکومتوں پر قدغن لگایا جانا چاہیے۔

کانگریس صدر اور راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے قائد ملکارجن کھڑگے نے منگل کے روز نائب صدر انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے پر سی پی رادھا کرشنن کو مبارکباد پیش کی ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ پارلیمانی روایات کے اعلیٰ اقدار کو بنائے رکھیں گے، اپوزیشن کے لیے یکساں مقام اور احترام یقینی بنائیں گے اور برسراقتدار پارٹی کے دباؤ کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
انتخابی نتائج برآمد ہونے کے بعد کھڑگے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنے ان خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’’نائب صدر انتخاب میں جیت حاصل کرنے پر سی پی رادھا کرشنن کو نیک خواہشات۔ ہم اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار بی سدرشن ریڈی کے تئیں ان کے جوش اور اصولوں کے ساتھ کی گئی جدوجہد کے لیے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’’یہ ایک انتخاب سے کہیں بڑھ کر تھا۔ یہ نظریات کی جنگ تھی، جس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہمارے آئین اور جمہوریت کی حفاظت کے لیے آمرانہ رجحانات والی حکومتوں پر قدغن لگایا جانا چاہیے۔‘‘
کھڑگے نے اس پوسٹ میں یہ بھی لکھا کہ ’’ترجیح کی ترتیب میں دوسرے اعلیٰ آئینی عہدہ، نائب صدر کو جمہوری اقدار کی حفاظت میں آزادی، غیر جانبداری اور قوت کو عکس بند کرنے کے لیے از سر نو زندہ کیا جانا چاہیے۔‘‘ ساتھ ہی وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ انتخاب کیوں ضروری تھا۔ جگدیپ دھنکھڑ نے مانسون اجلاس کے شروع میں اچانک عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ غیر واضح اور غیر رسمی طور سے ہوا۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’’جیسے جیسے ہم آگے بڑھیں گے، شفافیت، جوابدہی اور آئینی عہدوں کے تئیں احترام سے متعلق ہمارے اداروں کو حرف بہ حرف اور اصل جذبہ سے رہنمائی کرنا چاہیے۔‘‘
نائب صدر انتخاب کا نتیجہ جاری ہونے کے بعد کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش کا رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’اپوزیشن نائب صدر انتخاب میں پوری طرح متحد کھڑا رہا۔ اپوزیشن کی کارکردگی بلاشبہ احترام کے قابل رہا۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’(انڈیا بلاک کے) مشترکہ امیدوار، جسٹس (سبکدوش) بی سدرشن ریڈی نے 40 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ 2022 میں اپوزیشن کو محض 26 فیصد ووٹ ملے تھے۔‘‘ آخر میں وہ لکھتے ہیں ’’بی جے پی کی ریاضی پر مبنی جیت درحقیقت اخلاقی اور سیاسی دونوں طرح سے شکست ہے۔ نظریاتی جنگ مستقل جاری ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔