کانگریس کا صدارتی انتخاب: ووٹوں کی گنتی جاری، دیگر جماعتوں پر بھی جمہوری انتخاب کرانے کا دباؤ

کانگریس صدر کے عہدے کے انتخاب کے بعد آج ووٹوں کی گنتی کی جا رہی ہے، جس کے حوالہ سے لوگوں میں کافی تجسس ہے اور دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی اس الیکشن کے طریقہ کار کو اپنانے کا دباؤ ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: کانگریس کے صدر عہدے کے لیے ہونے والے انتخاب کے ووٹوں کی گنتی دہلی میں کانگریس ہیڈ کوارٹر پر صبح 10.30 بجے شروع ہوئی۔ پیر 17 اکتوبر کو ہونے والی پولنگ کے بعد منگل کی شام تک ملک کے مختلف حصوں میں واقع 68 پولنگ اسٹیشنوں سے تمام سیل بند بیلٹ بکس پارٹی ہیڈ کوارٹر لا کر اسٹرانگ رومز میں رکھے گئے تھے۔ صدر کے عہدے کے لیے دو امیدوار ملکارجن کھڑگے اور ششی تھرور کے درمیان مقابلہ ہے، جس میں کانگریس کے 9500 مندوبین نے ووٹ دیا ہے۔

غورطلب ہے کہ 1992 اور 1998 کو چھوڑ کر جب پی وی نرسمہا راؤ اور سیتارام کیسری کانگریس کے صدر تھے، پارٹی کی قیادت 1978 سے زیادہ تر نہرو-گاندھی خاندان کے پاس ہی رہی ہے۔ کانگریس صدر کے عہدہ کے لیے موجودہ انتخاب سے قبل (1939، 1950، 1977، 1977، 2000) میں انتخاب ہو چکے ہیں۔


سماج وادی پارٹی، آر جے ڈی، اے سی پی، ٹی آر ایس یا وائی ایس آر کانگریس جیسی بہت سی علاقائی پارٹیاں ہیں جہاں پارٹی کی باگڈور عموماً ایک خاندان کے ہاتھ میں ہوتی ہے، وہیں بی جے پی کی باگڈور اس کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس (سنگھ) کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سنگھ ہی بی جے پی کے صدر کا انتخاب کرتا ہے۔

حال ہی میں، جب بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے نشاندہی کی کہ کانگریس صدر کے انتخاب میں ششی تھرور کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے تو تھرور نے واضح لہجے میں جواب دیا، "ہم اپنے اختلافات کو آپس میں ہی حل کرنے کے اہل ہیں۔ پارٹی انتخاب کے معاملے میں آپ کو اپنی ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے اپنے یہاں ایسا کر کے تو دکھائیں‘‘


وہیں ملکارجن کھڑگے نے بھی کہا، "ہم دونوں کانگریس کو مضبوط کرنے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک مضبوط اور بہتر ملک کی تعمیر کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔" میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک امیدوار نے لکھنؤ میں ووٹنگ کے سلسلے میں کچھ بے ضابطگیوں کا مسئلہ اٹھایا ہے لیکن میڈیا نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ انتخابی افسر نے وضاحت کی ہے کہ کانگریس کے تین سکریٹری لکھنؤ میں ووٹ ڈالنا چاہتے تھے لیکن انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

خیال رہے کہ پرمود تیواری، کے سریش، گورو گگوئی، سید ناصر حسین، کلجیت سنگھ باگرا اور گوردیپ سپل ملکارجن کھڑگے کے کاؤنٹنگ ایجنٹ ہیں، جبکہ اتل چترویدی، کارتی چدمبرم اور سومیدھ گائیکواڑ دوسرے امیدوار ششی تھرور کے ایجنٹ ہیں۔


اس الیکشن کو لے کر نہ صرف میڈیا بلکہ عام لوگوں میں بھی کافی تجسس پایا جاتا ہے۔ کانگریس کارکنان اور نمائندے بھی انتخابی نتائج کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ نومبر 2000 کو ہونے والے انتخاب میں سونیا گاندھی نے جتیندر پرساد کو شکست دی تھی، اس کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے۔ سال 2017 کے کانگریس صدارتی انتخابات میں راہل گاندھی بلا مقابلہ صدر منتخب ہوئے تھے۔

کانگریس ملک کی واحد پارٹی ہے جس نے صدر کے عہدے کے لیے انتخاب کا راستہ اختیار کیا ہے۔ تاہم 2019 سے اب تک انگریزی میڈیا میں کم از کم 27 ایسے مضامین شائع ہو چکے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کا ہونا بہت ضروری ہے لیکن بی جے پی میں کسی بھی عہدے کے لیے انتخاب نہیں ہوتا، صدر کا عہدہ تو دور کی بات ہے۔


کانگریس صدر کے انتخاب کے لیے جس طرح کے انتظامات کیے گئے ہیں، پارٹی کارکنان کافی پرجوش ہیں۔ ووٹنگ کے لیے کیو آر کوڈڈ شناختی کارڈ جاری کیے گئے تھے، پولنگ بوتھ بنائے گئے اور خفیہ رائے شماری کا انتظام کیا گیا۔ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کا خیال ہے کہ اس انتخاب کے بعد پارٹی میں ضلع اور ریاستی سطح پر بھی جمہوری نظام مضبوط ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔