’وقف بورڈ کے بارے میں یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ کسی بھی زمین کو اپنی ملکیت قرار دے سکتا ہے‘، ناصر حسین حکومت پر حملہ آور

ناصر حسین نے کہا کہ ’’اس ملک میں انڈومنٹ بورڈ ہے، اس ملک میں ہندو مذہبی مقامات کا ایکٹ ہے، اس ملک میں ایس جی پی سی ہے، مندر بھی ٹرسٹ ہے اور عیسائیوں کے لیے کونسل اور کارپوریشن ہے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>کانگریس رکن پارلیمنٹ سید نصیر حسین، تصویر&nbsp;<a href="https://x.com/NasirHussainINC">@NasirHussainINC</a></p></div>

کانگریس رکن پارلیمنٹ سید نصیر حسین، تصویر@NasirHussainINC

user

قومی آواز بیورو

راجیہ سبھا میں جمعرات (3 اپریل) کو وقف ترمیمی بل 2024 پیش کیا گیا۔ اس پر کانگریس کا موقف رکھتے ہوئے راجیہ سبھا رکن سید ناصر حسین نے کہا کہ وقف کا مطلب عطیہ ہے، کوئی بھی کسی کو بھی عطیہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عطیہ کا تصور صرف ہمارے مذہب میں ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب میں ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمارے عطیات سے بنائے گئے اداروں کی دیکھ ریکھ کرنے کے لیے وقف بورڈ بنایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ پھیلایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے وقف بورڈ بنایا گیا ہے۔ شاید ان کو معلوم نہیں اور شاید یہ بولنا بھی نہیں چاہتے کہ اس ملک میں انڈومنٹ بورڈ ہے، اس ملک میں ہندو مذہبی مقامات کا ایکٹ ہے، اس ملک میں ایس جی پی سی ہے، مندر بھی ٹرسٹ ہے اور عیسائیوں کے لیے کونسل اور کارپوریشن ہے۔ ہر مذہب کے معاملات کو منظم کرنے کے لیے الگ الگ ایکٹ بنائے گئے ہیں۔

ناصر حسین نے خطاب کے دوران کہا کہ سب سے بڑا جھوٹ یہ پھیلایا گیا ہے کہ وقف بورڈ کسی بھی زمین کو اپنی ملکیت قرار دے سکتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہندوستان میں کوئی اصول، قواعد و ضوابط یا جائیداد کے قوانین نہیں ہیں؟ ہم ٹرینوں اور ہوائی جہازوں میں سفر کرتے ہیں اور کئی بار نماز بھی پڑھتے ہیں، تو کیا ٹرین اور ہوائی جہاز بھی ہمارے ہو گئے؟


ناصر حسین نے کہا کہ اگر وقف بورڈ کے سامنے کوئی شکایت آتی ہے تو اس کی تفتیش کی جاتی ہے۔ تفتیش کے لیے اصول مقرر کیے گئے ہیں۔ انہوں نے اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شاید ان کو ان قوانین کا علم نہیں ہے۔ ساتھ ہی ناصر حسین نے کہا کہ تفتیش مکمل ہونے کے بعد سروے کمشنر سروے کرتے ہیں اور کلکٹر اس کی جانچ کرتے ہیں۔ اس کے بعد معاملہ ریاستی حکومت کے پاس جاتا ہے۔ ریاستی حکومت اس کی تصدیق کر کے اسے گزٹ میں شامل کرتی ہے۔ یہی نہیں اس کے باوجود بھی اگر کوئی غیر مطمئن ہے تو ٹریبونل میں جا سکتا ہے۔ ٹریبونل میں بھی اگر اس کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو وہ شخص عدالت میں جا سکتا ہے۔

ناصر حسین نے کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ وقف کے قانون کے خلاف عدالت میں ریویو نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس میں ریویو کیا جا سکتا ہے۔ اگر عدالت میں ریویو نہیں کیا جا سکتا تو پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں وقف کے اتنے معاملے کیسے زیر التواء ہیں؟ کیسے وہاں اتنے معاملات پہنچے ہیں؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔