اے بی پی-سی ووٹر سروے: مدھیہ پردیش میں کانگریس کو فائدہ، حکومت تشکیل دینے کے قوی امکانات

سروے کے مطابق مدھیہ پردیش کی 230 رکنی اسمبلی میں کانگریس کو 130 سیٹیں ملنے کا اندازہ ہے جبکہ بی جے پی 111 سیٹیں ملنے کا۔

<div class="paragraphs"><p>کمل ناتھ، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

کمل ناتھ، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

اے بی پی نیوز-سی ووٹر کے اسپیشل اوپینین پول سے پتہ چلا ہے کہ مدھیہ پردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخاب میں کانگیس کو بی جے پی پر سبقت حاصل ہے۔ سروے کے مطابق کانگریس کے 130 سیٹ تک جیتنے کا اندازہ ہے، یعنی ریاست میں سب سے پرانی پارٹی کی حکومت بننے کے قوی امکانات ہیں۔ ساتھ ہی کانگریس کے ووٹ شیئر میں بھی اضافہ کا اندازہ ظاہر کیا گیا ہے۔

سروے کے مطابق کانگریس کو انتخاب میں 44.3 فیصد ووٹ شیئر ملنے کا اندازہ ہے جو 2018 کے اسمبلی انتخاب میں 40.9 فیصد تھا۔ اس سروے کے مطابق کانگریس 118 سے 130 سیٹیں حاصل کر سکتی ہے، حالانکہ 2018 اسمبلی انتخاب میں اسے 114 سیٹیں ملی تھیں۔ 230 رکنی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے 116 سیٹوں کی ضرورت ہے، یعنی کانگریس آسانی سے حکومت تشکیل دیتی نظر آ رہی ہے۔


سروے میں بی جے پی کو مدھیہ پردیش اسمبلی انتخاب میں 99 سے 111 سیٹیں ملنے کا اندازہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کا ووٹ شیئر 2018 کے 41 فیصد سے بڑھ کر 42.1 فیصد ہونے کا اندازہ بھی ہے۔ یعنی جس بی ایس پی کو کبھی اتر پردیش کی سرحد سے ملحق ریاست کے کچھ علاقوں میں خاطر خواہ موجودگی تھی، اس کی گرفت اب کمزور ہو رہی ہے۔ اندازہ ہے کہ اس کا 2018 میں حاصل ووٹ شیئر 5 فیصد سے گھٹ کر 2.2 فیصد رہ جائے گا۔

2018 میں جب کانگریس نے کمل ناتھ کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے حکومت بنائی تھی تو بی جے پی نے 109 سیٹیں جیتی تھیں۔ حالانکہ مارچ 2020 میں جیوترادتیہ سندھیا اور 2 سے زیادہ اراکین اسمبلی کی بغاوت کے سبب کانگریس حکومت گر گئی تھی اور شیوراج سنگھ چوہان پھر سے ریاست کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کے خلاف کسی بھی مضبوط اقتدار مخالف جذبات کے مقابلے میں ووٹروں کی بی جے پی کے تئیں ’تھکن‘ کے سبب کانگریس کو زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ دوسری وجہ جو کانگریس کو سبقت دلانے میں مدد کرتی دکھائی دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ مارچ 2020 میں جیوترادتیہ سندھیا اور ان کے حامیوں کو بی جے پی میں شامل ہونے سے چنبل-گوالیر حلقہ میں کانگریس کے تئیں ووٹرس کا جھکاؤ نہیں بدلا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔