ناگپور میں فرقہ وارانہ تشدد، کانگریس نے حکومت کو ٹھہرایا ذمہ دار
ناگپور میں پیر کو فرقہ وارانہ تشدد کے بعد کچھ علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ کانگریس کے ریاستی صدر ہرشوردھن سپکال نے حکومت پر الزام لگایا کہ وزراء کے اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے تشدد بھڑکا

ہرش وردھن سپکال / سوشل میڈیا
ناگپور: مہاراشٹر کے ناگپور میں پیر (17 مارچ) کو فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سامنے آئے، جس میں آگ زنی اور پتھراؤ کے بعد حالات بے قابو ہو گئے۔ اس کے پیش نظر کچھ علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ کانگریس نے اس معاملے پر مہاراشٹر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
مہاراشٹر کانگریس کے صدر ہرشوردھن سپکال نے ریاستی حکومت اور وزیر داخلہ دیویندر فڑنویس پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ ناگپور میں پیش آیا تشدد ریاست کے محکمہ داخلہ کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے وزراء جان بوجھ کر اشتعال انگیز بیانات دے رہے تھے، جس کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا۔
کانگریس رہنما نے کہا، "ناگپور میں تشدد، پتھراؤ اور آگ زنی مہاراشٹر کے محکمہ داخلہ کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے ریاستی وزراء معاشرے میں تشدد بھڑکانے کے لیے اشتعال انگیز بیانات دے رہے تھے۔ ناگپور میں ان کی کوششیں کامیاب ہو گئیں۔"
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ امن و صبر کا مظاہرہ کریں۔ سپکال نے کہا، "ناگپور میں تمام مذاہب کے لوگ آپس میں محبت و بھائی چارے کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ واقعہ بہت افسوسناک ہے۔ ہم عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ افواہوں پر دھیان نہ دیں اور پولیس کا مکمل تعاون کریں۔"
ناگپور میں اورنگزیب کی قبر ہٹانے کے مطالبے پر ایک ہندو تنظیم نے مظاہرہ کیا تھا۔ اس دوران مقدس صحیفے کو جلائے جانے کی افواہ پھیل گئی، جس کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے۔ مشتعل ہجوم نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور کئی گاڑیوں میں آگ لگا دی گئی۔
وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس، جو ناگپور کے ہی رہائشی ہیں، نے عوام سے اپیل کی کہ وہ افواہوں پر یقین نہ کریں اور امن و امان برقرار رکھیں۔ انہوں نے پولیس کے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ حالات کو قابو میں لانے کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے اور شہریوں کو تعاون دینا چاہئے۔
پولیس نے فساد میں ملوث درجنوں افراد کو حراست میں لیا ہے۔ تشدد کے بعد کئی علاقوں میں اضافی پولیس فورس تعینات کر دی گئی ہے۔ پولیس حکام نے کہا ہے کہ صورتحال قابو میں ہے اور حالات پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔