آکسیجن کی کمی سے 22 اموات کے معاملہ میں آگرہ کے اسپتال کو کلین چٹ! کمیٹی کی رپورٹ پر سوال

تفتیشی کمیٹی کی جانب سے آگرہ کے پارس اسپتال کو کلین چٹ دیئے جانے پر سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ یہ رپورٹ اسپتال انتظامیہ کے بیان کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

آگرہ: کورونا وبا کے دوران کی گئی ماک ڈرل (مشق) کے دوران آکسیجن کی کمی کے باعث 22 مریضوں کی موت واقع ہو جانے کے معاملہ میں آگرہ کے ایک اسپتال کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔ اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد تفتیش کا حکم دے دیا گیا تھا، جس کے بعد ڈیتھ آڈیٹ کمیٹی کی رپورٹ میں آکسیجن کی کمی کے سبب 22 اموات کی تردید کی گئی تھی۔

تفتیشی کمیٹی کی جانب سے آگرہ کے پارس اسپتال کو کلین چٹ دیئے جانے پر سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ یہ رپورٹ اسپتال انتظامیہ کے بیان کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے اور اصل حقائق کو بروئے کار نہیں لایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جانچ پورٹ میں جو کچھ بتایا جا رہا ہے وہ استپال انتظامیہ کی جانب سے پہلے ہی کہی جا چکیں ہیں۔ اگرچہ اس رپورٹ کا انتظامیہ کی جانب سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے، تاہم اس سے پہلے ہی یہ میڈیا کے ہاتھ لگ گئی ہے۔


ڈیتھ آڈیٹ رپورٹ پر سوال کھڑے ہو رہے ہیں کہ آخر 22 لوگوں کی موت کے معاملہ میں اسپتال انتظامیہ کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کیوں کر دی گئی؟ مرنے والے لوگوں کے اہل خانہ سے بات چیت کیوں نہیں کی گئی؟ ویڈیو کی جانچ کیے بغیر اسے چھیڑ چھاڑ والی کیوں بتایا دیا گیا؟ جبکہ اسپتال کے مالک ارینجے جین سے جب بات کی گئی تھی تو انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ ویڈیو انہیں کا ہے۔ اتنا ہی نہیں رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تاحال کچھ نکات پر جانچ کی جانی باقی ہے۔ یہ سوال بھی کھڑا ہوتا ہے کہ تمام نکات پر جانچ کیے بغیر ہی استپال انتظامیہ کو کلین چٹ کیوں دے دی گئی۔

خیال رہے کہ 7 جون کو آگرہ کے پارس اسپتال کے مالک ڈاکٹر ارینجے جین کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں وہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ انہوں نے 5 آکسیجن بند کر کے ایک تجربہ کیا تھا۔ ویڈیو میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ آکسیجن بند کر کے یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ اس کا سنگین مریضوں پر کیا اثر پڑے گا۔ جبکہ آگرہ کے ضلع مجسٹریٹ پربھو نارائن سنگھ نے اسی دن پریس کانفرنس کر کے بتایا تھا کہ 26 اپریل کی رات اسپتال میں محض 3 اموات واقع ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آکسیجن کی کمی کے سبب کوئی موت نہیں ہوئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔