ہندوستان میں اپنی مصنوعات کے بائیکاٹ کی زور پکڑتی مانگ سے چین کے اڑے ہوش

ہند- چین تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق 2018-19ءمیں دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تجارت تقریباً 88 ارب ڈالر رہی تھی۔ ہندوستان کا تجارتی خسارہ تقریباً 52 ارب ڈالر رہا۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہلی: لداخ کی وادی گلوان میں چین کی غیرقانونی دراندازی اور ہندوستانی فوجی اہلکاروں کے ساتھ تنازعہ کے بعد ہندوستان میں وہاں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی چوطرفہ آواز بلند ہونے سے چین کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے ہیں اور اس نے عالمی وبا کووڈ 19 کی دہائی دے کر اس سے پیدا ہوئے مواقع کا فائدہ اٹھانے کی اپیل کرنا شروع کر دی ہے۔

وادی گلوان میں 15-16 جون کی درمیانی شب کو ہونے والی جھڑپوں میں ایک کرنل سمیت 20 ہندوستانی فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔ چین کے بھی بڑی تعداد میں فوجی اہلکاروں کے مارے جانے کی رپورٹ ہے، حالانکہ چین نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔ اس واقعہ کے بعد ہندوستان میں چین سے درآمد شدہ مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ روز پکڑنے لگا ہے۔


بدھ کے روز چین کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور چینی سامان کی ہولی جلائی گئی۔ اس کے بعد چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک ٹوئٹ کر کے کہا کہ ’’سرحدی تنازعے کے بعد ہندوستان میں چین کا بائیکاٹ کرنے کی آواز بلند ہوئی ہے۔ سرحدی معاملے پر سرمایہ کاری اور تجارت کو بغیر غور و خوض کرنے کے چھوڑنا منطقی دلائل نہیں ہے۔ دونوں ممالک کو عالمی وبا کے سبب پیدا شدہ غیر یقینی صورتحال میں سامنے آئے اہم مواقع سے مستفید ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک مزید ٹوئٹ نے تجزیہ کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دونوں ممالک کے مابین باہمی تعلقات معمول پر نہیں آئے تو تجارت اور کاروبار پر شدید اثر پڑ سکتا ہے۔ اگر صورتحال واضح نہیں ہوئی تو دونوں ممالک کے مابین باہمی تجارت کو بیس فیصد تک دھچکا لگ سکتا ہے۔

ہند- چین تجارت کے اعدادوشمار کے مطابق 2018-19ءمیں دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تجارت تقریباً 88 ارب ڈالر رہی تھی۔ ہندوستان کا تجارتی خسارہ تقریبا 52 ارب ڈالر رہا۔ گزشتہ کئی سالوں سے چین کے ساتھ مسلسل بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ہندوستان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے۔ تاہم چین کے بازار تک ہندوستان کی زیادہ رسائی اور امریکہ اور چین کے مابین جاری تجارتی جنگ کی وجہ سے ہندوستان سے چین کی برآمدات 18 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جو 2017-18ء میں 13 ارب ڈالر تھی۔ اس دوران چین سے ہندوستان کی درآمدات 76 ارب ڈالر سے کم ہوکر 70 ارب ڈالر رہ گئی۔ چین سے ہندوستان سب سے زیادہ درآمد کرتا ہے جبکہ اس وقت چین ہندوستانی مصنوعات کی برآمدات کا تیسرا سب سے بڑا بازار ہے۔ چین سے ہندوستان اہم طور پر برقی آلات، مکینیکل سامان، نامیاتی کیمیکل وغیرہ درآمد کرتا ہے، جبکہ ہندوستان سے چین بنیادی طور پر معدنی ایندھن اور کپاس وغیرہ برآمد کیا جاتا ہے۔


گزشتہ دہائی کے دوران چین نے ہندوستانی بازار میں تیزی سے اپنی رسائی بڑھائی ہے اور اس نے اپنے سامان کی سپلائی میں مسلسل اضافہ کیا ہے ، لیکن پہلی بار 2018-19 میں چین سے درآمدات میں کمی آئی۔ اب اپریل 2019 میں چین کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے بھارت نے 380 مصنوعات کی ایک فہرست چین کو بھیجی تھی جس کی چین میں برآمدات بڑھائی جاسکتی ہے۔ ان میں اہم باغبانی ، ٹیکسٹائل ، کیمیکل اور دواسازی کی اشیا شامل ہیں۔ لداخ کی وادی گلوان میں پرتشدد جھڑپوں کے بعد چین کے تعلق سے میں ملک میں غم و غصے کا ماحول ہے۔ چین کو سبق سکھانے کے لئے متعدد تنظیموں نے چینی سامان کے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کر ڈالا ہے ۔

وادی گلوان میں تنازعہ کے بعد میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارت مواصلات نےبی ایس این ایل کو چینی کمپنیوں کی افادیت کو کم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ وزارت نے بی ایس این ایل کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی قیادت میں چینی کمپنیوں کی افادیت کو کم کرے۔ اگر کوئی ٹینڈر ہے تو اس پر ازسر نو غور کریں۔ اس کے علاوہ وزارت نے پرائیوٹ کمپنیوں کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اس سمت میں غوروخوض کرکےازسر نو پختہ فیصلے لیں۔ وزارت کی ہدایت کے تحت 4 جی سہولت کو اپ گریڈ کرنے میں چینی ساختہ کوئی سامان استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ پورا ٹینڈر ازسر نو کیا جانا چاہئے۔


تمام پرائیوٹ سروس فراہم کرنے والے آپریٹرز کو ہدایت دی جائے گی کہ چینی سازوسامان پر انحصار تیزی سے کم کریں۔ ملک کی جتنی بھی بڑی انٹرنیٹ کمپنیاں ہیں ان میں چین کی بڑی سرمایہ کاری ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ٹیلی مواصلات کے سامان کی مارکیٹ 12 ہزار کروڑ ہے ، جس میں چینی مصنوعات کا حصہ تقریباََ ایک چوتھائی ہے ۔ ٹیلی کام کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ چین کے مقابلے میں امریکی اور یوروپی ٹیلی کام آلات خریدنے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کی لاگت میں 10-15 فیصد تک اضافہ ہوگا۔ لیکن جب حکومت نے متنبہ کیا ہے تو پھر کمپنیوں کو اسے سنجیدگی سے لینا پڑے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔