’مدھیہ پردیش میں بچوں کی موت ہوتی رہی اور وزیر اعلیٰ موہن یادو کاجی رنگا نیشنل پارک میں موج مستی کرتے رہے‘
کانگریس نے مدھیہ پردیش میں معصوم بچوں کی ’کف سیرپ‘ پینے سے ہوئی موت کے لیے وزیر اعلیٰ موہن یادو کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ انھیں فرق نہیں پڑا کہ ان کی بدعنوانی معصوموں کی جان لے رہی ہے۔

’’مدھیہ پردیش میں بچوں کی موت ہوتی رہی اور وزیر اعلیٰ موہن یادو کاجی رنگا نیشنل پارک میں موج مستی کرتے رہے۔ انھیں فرق نہیں پڑا کہ ان کی بدعنوانی معصوم بچوں کی جان لے رہی ہے۔ بھوپال سے چھندواڑا کی دوری محض 6 گھنٹے کی ہے، لیکن موہن یادو کو وہاں پہنچنے میں 33 دن لگ گئے۔‘‘ یہ بیان کانگریس نے مدھیہ پردیش میں ’کف سیرپ‘ پینے سے کئی معصوم بچوں کی ہوئی موت پر اپنا افسوس ظاہر کرتے ہوئے دیا ہے۔ اس واقعہ کے لیے کانگریس نے وزیر اعلیٰ موہن یادو کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک نیوز چینل کی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں عوام بھی وزیر اعلیٰ کے تئیں اپنی ناراضگی ظاہر کر رہے ہیں۔
بی جے پی حکمراں مدھیہ پردیش اور راجستھان میں زہریلے ’کف سیرپ‘ کے استعمال سے کئی بچوں کی موت ہو چکی ہے، لیکن حکومت کی کارروائی اب تک خانہ پری ہی معلوم پڑ رہی ہے۔ متنازعہ ’کف سیرپ‘ پر پابندی تو عائد کر دی گئی ہے، لیکن پہلے سے ہی ٹیسٹ میں فیل کف سیرپ کو استعمال کرنے کی اجازت کیوں دی گئی، اس سوال کا جواب حکومت نہیں دے رہی۔ کانگریس نے آج معصوم بچوں کی ہوئی اموات پر افسوس ظاہر کرنے اور حکمراں طبقہ کی لاپروائی سامنے لانے کے مقصد سے پارٹی ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس بھی کی۔ اس پریس کانفرنس میں مدھیہ پردیش اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر امنگ سنگھار اور راجستھان اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر ٹیکارام جولی نے کچھ اہم باتیں میڈیا کے سامنے رکھیں۔
امنگ سنگھار نے جانکاری دی کہ مدھیہ پردیش کے چھندواڑا میں کف سیرپ پینے سے 16 بچوں کی موت اب تک ہو چکی ہے۔ انھوں نے اس بات پر حیرانی ظاہر کی کہ نائب وزیر اعلیٰ نے کف سیرپ سے کوئی موت نہیں ہونے کی بات کہی اور سیرپ بنانے والی کمپنی کو کلین چٹ دے دی۔ کانگریس لیڈر نے بتایا کہ مقامی رکن اسمبلی نے شروع میں ہی وزیر اعلیٰ، وزیر صحت اور کلکٹر کو خط لکھ کر جانچ کا مطالبہ کیا، لیکن کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ انھوں نے بچوں کی موت کے درمیان وزیر اعلیٰ کے کاجی رنگا پارک میں ہاتھیوں کے ساتھ موج مستی کو لے کر طنز بھی کسا۔
اُمنگ سنگھار کے مطابق کڈنی فیل ہونے سے بچوں کی یکے بعد دیگرے موت ہوتی رہی، لیکن ٹیسٹ نہیں کروائے گئے۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ دوا کمپنیاں حکومت کے ساتھ مل کر پراسیا جیسے قبائلی علاقوں اور چھوٹے اضلاع میں تجارت کر رہی ہیں، تو کیا حکومت کے وزیر ایسی کمپنیوں سے حصہ لے رہے ہیں؟ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت ہند نے 3 اکتوبر 2025 کو کف سیرپ سے متعلق ایڈوائزری جاری کی تھی، لیکن اس کے باوجود مدھیہ پردیش اور راجستھان حکومت بیدار نہیں ہوئی۔ انھوں نے اس کے پیچھے زبردست بدعنوانی کو وجہ قرار دیا۔ انھوں نے حکومت سے متاثرہ کنبوں کے ایک ایک رکن کو ملازمت کے ساتھ علاج میں خرچ ہوئی رقم دینے کا بھی مطالبہ کیا۔
کانگریس لیڈر ٹیکارام جولی نے راجستھان کے حالات میڈیا کے سامنے رکھے۔ انھوں نے بتایا کہ ریاست میں کف سیپر سے اب تک 4 اموات ہو چکی ہیں، لیکن حکومت یہ ماننے کو تیار نہیں کہ موت کی وجہ کف سیرپ ہے۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ جن کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا جا چکا ہے، یا جن کے بھروسے پر پہلے سے ہی سوال اٹھتے رہے ہیں، ان سے حکومتیں دوائیوں کی سپلائی کیوں لے رہی ہے؟ انھوں نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی حکومت نے کارروائی کرنے کی جگہ صرف کمیٹی بنا دی، جس کا مقصد معاملہ کو بھٹکانا اور ٹھنڈے بستے میں ڈالنا ہے۔
ٹیکارام جولی کا کہنا ہے کہ راجستھان حکومت نے ابھی تک زمینی سطح پر کف سیرپ پر پابندی لگانے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا، نہ ہی آن لائن ریکارڈ ہونے کے باوجود یہ پتہ لگانے کے لیے کوئی سروے کیا کہ یہ سیرپ کس کس کو دی گئی ہے۔ انھوں نے جئے پور کے ایس ایم ایس اسپتال کے آئی سی یو میں آگ لگنے کے واقعہ کا بھی ذکر کیا، جس میں 8 لوگوں کی موت ہو گئی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ اسپتال کا اسٹاف مریضوں کو بہ حفاظت نکالنے کی اپنی ذمہ دارنبھانے کی جگہ وہاں سے فرار ہو گیا اور وزیر صحت بھی آتشزدگی واقعہ کے 24 گھنٹے بعد اسپتال پہنچے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔