مرکز نے جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ روکا، بی جے پی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا دیا تھا حکم

جسٹس مرلی دھر نے اشتعال انگیز تقریر کے لیے بی جے پی رہنما انوراگ ٹھاکر، کپل مشرا، پرویش ورما سمیت تمام لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس مرلی دھر، تصویر آئی اے این ایس
جسٹس مرلی دھر، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

دہلی میں فسادات کے بعد مرکزی حکومت نے انوراگ ٹھاکر، کپل مشرا سمیت بی جے پی کے کئی بڑے رہنماؤں کے خلاف سخت ریمارک کرنے والے جج کا تبادلہ روک دیا ہے۔ سپریم کورٹ کالجیم نے اڈیشہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر کام کر رہے جسٹس ایس مرلی دھر کو مدراس ہائی کورٹ منتقل کرنے کی سفارش کی تھی، لیکن حکومت نے اسے منظور نہیں کیا۔ جبکہ دیگر تین ججوں کے تبادلے کو گرین سگنل دے دیا ہے۔

نیوز پورٹل اے بی پی پر شائع خبر کے مطابق 28 ستمبر کو کالجیم نے جسٹس پنکج متل کو راجستھان اور جسٹس ایس مرلی دھر کو مدراس ہائی کورٹ بھیجنے کی سفارش کی تھی۔ یہ سفارش مرکزی حکومت کے محکمہ انصاف کو بھیجی گئی تھی جس کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے جسٹس متل کے تبادلے کو منظوری دے دی، جو پہلے جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ان کے علاوہ حکومت نے 28 ستمبر کو پی بی ورلے کو کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور جسٹس علی محمد ماگرے کو جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تقرری کی منظوری دی تھی۔


جسٹس ایس مرلی دھر کا ٹریک ریکارڈ غیر معمولی رہا ہے، وہ اپنے سخت لہجے اور فیصلے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ لائیو لاء کے اعداد و شمار کے مطابق جسٹس مرلی دھر کو 2006 میں دہلی ہائی کورٹ میں جج کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ تب وہ اس بنچ کا حصہ تھے جس نے پہلی بار 2009 میں ناز فاؤنڈیشن کیس میں ہم جنس پرستی کے حق میں تبصرہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ جسٹس مرلی دھر نے اس بنچ کی بھی صدارت کی جس نے ہاشم پورہ قتل عام کیس میں پی اے سی اہلکاروں اور سکھ مخالف فسادات کے معاملے میں کانگریس لیڈر سجن کمار کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔

جسٹس ایس مرلی دھر کا نام اس وقت کھل کر سامنے آیا جب سال 2020 میں دہلی میں فسادات ہوئے تھے۔ ان فسادات کے بعد جسٹس مرلی دھر نے بی جے پی لیڈران انوراگ ٹھاکر، کپل مشرا، پرویش ورما سمیت تمام لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا اور ساتھ ہی دہلی پولیس کی سخت سرزنش کی تھی۔ ان تمام بی جے پی رہنماؤں پر فسادات سے عین قبل اشتعال انگیز تقریریں کرنے کا الزام تھا۔ واضح رہے کہ فروری 2020 میں شہریت قانون کے خلاف جاری مظاہروں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ دو دن تک جاری رہنے والے ان فسادات میں 50 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔