نوٹ بندی پر مرکزی حکومت اور آر بی آئی کئی ایشوز پر نہیں تھے متفق، سپریم کورٹ کو بھی نہیں بتائی گئی پوری بات!

آر بی آئی نے اپنے حلف نامہ میں سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ مناسب طریقے پر عمل کیا گیا تھا اور اس نے ہی نوٹ بندی کی سفارش کی تھی۔

پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس
پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

مودی حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلے کو لے کر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹی، خصوصاً کانگریس نوٹ بندی کو غلط فیصلہ بتاتی رہی ہے۔ اس معاملے کو لے کر سپریم کورٹ میں بھی کئی عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ ان عرضیوں پر سپریم کورٹ 2 جنوری 2023 کو اپنا فیصلہ سنائے گا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے نوٹ بندی کے فیصلے پر حلف نامہ داخل کرنے کو کہا تھا جس میں مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ پوری طرح غور و خوض کے بعد ہی نوٹ بندی کا فیصلہ لیا گیا تھا۔ مرکزی حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے ذریعہ بتایا گیا کہ نوٹ بندی کے اعلان سے 9 ماہ قبل مرکزی حکومت اور آر بی آئی میں صلاح و مشورہ کا عمل شروع ہوا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ پی ایم مودی نے 8 نومبر 2016 کو رات 8 بجے نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا۔ حلف نامہ میں بتایا گیا ہے کہ اس سے 9 ماہ پہلے فروری 2016 سے ہی اس عمل کا آغاز ہو چکا تھا۔ آر بی آئی نے اپنے حلف نامہ میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ مناسب طریقے پر عمل کیا گیا تھا اور اس نے ہی نوٹ بندی کی سفارش کی تھی۔ انڈین ایکسپریس میں شائع ایک خبر کے مطابق حکومت اور آر بی آئی کے حلف ناموں میں جس بات کا تذکرہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ نوٹ بندی کے لیے آر بی آئی کی سفارش ایک عملی ضرورت تھی۔ حالانکہ اس سے پہلے مرکزی بینک نے حکومت کے کئی فیصلوں کی تنقید کی تھی۔


مرکزی حکومت اور آر بی آئی نے اپنے حلف نامے میں سپریم کورٹ سے کچھ باتیں چھپائیں

جی ڈی پی کے فیصد کی شکل میں کرنسی ان سرکولیشن (سی آئی سی): ’جن ستا‘ کی خبر کے مطابق نوٹ بندی کو نافذ کرنے اور اسے درست ٹھہرانے کے پیچھے یہ ایک بڑی دلیل تھی۔ حکومت کا ماننا تھا کہ نقد کی وجہ سے بدعنوانی بڑھتی ہے۔ پی ایم مودی نے بھی نوٹ بندی کے وقت 8 نومبر 2016 کو جو تقریر کی تھی اس میں کہا تھا کہ نقد کا سرکولیشن بدعنوانی کی سطح سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ 12-2011 سے 16-2015 تک گزشتہ پانچ مالی سالوں میں کرنسی اِن سرکولیشن (سی ای سی) اور جی ڈی پی کا تناسب 11 فیصد یا اس سے زیادہ رہا ہے۔ حلف نامہ میں دیگر رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 11.55 فیصد پر ہندوستان کا کیش ٹو جی ڈی پی فیصد تناسب امریکہ (7.74 فیصد) کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا۔

حالانکہ حلف نامہ میں یہ بات چھپائی گئی کہ جی ڈی پی کے فیصد کی شکل میں سی آئی سی تین سال کے اندر نوٹ بندی سے پہلے کی سطح پر واپس آ گیا۔ 20-2019 کے لیے آر بی آئی کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’کرنسی-جی ڈی پی تناسب 20-2019 میں 11.3 فیصد سے بڑھ کر نوٹ بندی سے پہلے کی سطح 12.0 فیصد ہو گیا۔ یہ تناسب 20-2019 میں بڑھ کر 14.4 فیصد ہو گیا۔ وہیں آر بی آئی کے مطابق 22-2021 میں یہ 13.7 فیصد تک گر گیا۔‘‘


500 روپے اور 1000 روپے جیسے بڑے نوٹ کے چلن میں اضافہ: مرکزی حکومت نے نوٹ بندی کے لیے جو مزید ایک وجہ بتائی وہ ہے بڑے نوٹوں کے چلن میں اضافہ۔ مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامہ میں عدالت کو بتایا کہ گزشتہ 5 سالوں میں 500 روپے کے نوٹ میں 76.38 فیصد اور 1000 روپے کے نوٹ کے چلن میں 108.98 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ اس کے علاوہ 15-2014 اور 16-2015 کے معاشی سروے میں دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 12-2011 سے 16-2015 تک معیشت کا سائز 30 فیصد گھٹ گیا۔

حالانکہ آر بی آئی نے حکومت کی اس دلیل کو نہیں مانا۔ ’جن ستا‘ کی رپورٹ کے مطابق آر بی آئی کے مرکزی بورڈ نے حکومت کے اس تجزیہ میں خامی بتائی۔ آر بی آئی نے کہا کہ مذکورہ معیشت کی شرح ترقی حقیقی شرح ہے، جبکہ چلن میں کرنسی میں اضافہ انتہائی کم ہے۔ اس لیے نوٹ بندی سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا اور یہ دلیل اس کی حمایت نہیں کرتی ہے۔


نقلی نوٹ کی کثرت: مرکز نے اپنے حلف نامہ میں بتایا کہ سسٹم میں نقلی نوٹ کافی بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے ہندوستانی معیشت پر سنگین منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ حالانکہ آر بی آئی نے اس دلیل کو بھی کافی نہیں مانا۔ آر بی آئی سنٹرل بورڈ کی میٹنگ میں کہا گیا کہ ’’چلن میں موجود کرنسی کی مجموعی مقدار (17 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ) کے فیصد کی شکل میں 400 کروڑ روپے بہت اہم نہیں ہیں۔‘‘

بلیک منی رکھنے والوں نے 500 روپے اور 1000 روپے کے نوٹوں کو چھپایا: مرکزی حکومت کے مطابق ’’اعلیٰ قدر والے نوٹوں کی شکل میں بے حساب ملکیت کا ذخیرہ ہوا۔‘‘ حالانکہ آر بی آئی نے مرکزی حکومت کے اس دعوے کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ بلیک منی کے طور پر نقلی نہیں بلکہ سونے اور غیر منقولہ ملکیت رکھے جاتے ہیں۔ آر بی آئی نے کہا کہ ’’بیشتر بلیک منی نقد کی شکل میں نہیں بلکہ سونے یا غیر منقولہ ملکیت کی شکل میں رکھی جاتی ہے اور اس قدم کا ان ملکیتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔