والدین سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا مطالبہ غیر دانشمندانہ اور غلط: پی چدمبرم
پی چدمبرم نے تیسرا بچہ پیدا کرنے کی ترغیب دینے والے اعلان کو غلط قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی آبادی پہلے ہی زیادہ ہے، ترجیح بچوں کی صحت اور غذائیت ہونی چاہیے، نہ کہ تعداد بڑھانا

نئی دہلی: سابق مرکزی وزیر خزانہ پی چدمبرم نے آندھرا پردیش کے رکن پارلیمنٹ کالی سیٹی اپالا نائیڈو کی جانب سے تیسرا بچہ پیدا کرنے والی خواتین کو 50 ہزار روپے نقد اور لڑکا پیدا ہونے پر گائے دینے کے اعلان پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ چدمبرم نے اس اقدام کو غیر دانشمندانہ اور غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہندوستان کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ہندوستان پہلے ہی دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا ہے اور اب اس کی آبادی میں استحکام دیکھا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان کی آبادی 2062 تک اپنے عروج پر پہنچے گی، جس کے بعد اس میں کمی شروع ہو جائے گی۔
چدمبرم نے مزید کہا کہ ابھی ہمارے پاس 37 سال کا وقت باقی ہے اور اس دوران والدین کو زیادہ بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا گزشتہ 70 برسوں کی ترقی کو پلٹ دینے کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ ملک کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں زیادہ بچوں کی پیدائش کو فروغ دینا شامل نہیں ہے۔ ان کے بقول، اصل توجہ زچگی کے دوران اموات کی شرح کو کم کرنے، بچوں کو ابتدائی پانچ برسوں میں بہتر غذائیت اور نگہداشت فراہم کرنے پر ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی میں اضافے کی بجائے معیار زندگی کو بہتر بنانا ترجیح ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ آندھرا پردیش کے ویزیناگ رام سے تعلق رکھنے والے تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے رکن پارلیمنٹ کالی سیٹی اپالا نائیڈو نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ تیسرا بچہ پیدا کرنے والی خواتین کو 50 ہزار روپے کی نقد رقم دی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اگر بچہ لڑکا ہوا تو خاتون کو ایک گائے بھی بطور تحفہ دی جائے گی۔ اس اعلان کا مقصد آبادی میں اضافے کو فروغ دینا بتایا جا رہا ہے، لیکن اسے کئی حلقوں سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
چدمبرم نے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں وسائل پہلے ہی محدود ہیں، آبادی کو بڑھانے کی ترغیب دینا معاشی اور سماجی مسائل کو مزید گھمبیر بنا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں میں ہندوستان نے آبادی پر قابو پانے کے لیے جو کوششیں کیں، وہ اس طرح کے اقدامات سے ضائع ہو سکتی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ حکومت اور معاشرے کو مل کر بچوں کی بہتر پرورش اور صحت پر توجہ دینی چاہیے، نہ کہ ان کی تعداد بڑھانے پر۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔