پی ایم رہائش منصوبہ: بی جے پی کی کھلی قلعی، کھلے آسمان کے نیچے رات گزار رہے غریب!

گزشتہ 3 جنوری کو گورکھپور میں یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ’’2016 میں پی ایم رہائش منصوبہ میں ریاست 26ویں مقام پر تھا اور آج ملک میں نمبر 1 ہے۔‘‘ لیکن زمینی حقیقت اس سے بہت الگ ہے۔

تصویر بذریعہ کے. سنتوش
تصویر بذریعہ کے. سنتوش
user

قومی آوازبیورو

پی ایم رہائش منصوبہ کو لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بڑے بڑے دعوے کرتی رہی ہے۔ اعداد و شمار کی بنیاد پر مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ پی ایم رہائش منصوبہ میں اتر پردیش ملک میں اول مقام پر ہے۔ پی ایم مودی نے اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی تعریف بھی کی ہے۔ گزشتہ 3 جنوری کو گورکھپور میں یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ’’2016 میں پی ایم رہائش منصوبہ میں ریاست 26ویں مقام پر تھا، آج ملک میں نمبر 1 ہے۔‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود بی جے پی رکن اسمبلی اس منصوبہ میں بدعنوانی کی قلعی کھول رہے ہیں۔ علاوہ ازیں کھلے آسمان کے نیچے رات گزار رہے غریب بھی پی ایم رہائش منصوبہ کی اصلیت سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ اب جب پنچایت انتخاب کا اعلان ہو گیا ہے، تو شہری علاقوں کے مکان کی قسط روک کر دیہی علاقوں میں لالی پاپ دیا جا رہا ہے۔

اس تعلق سے ایک فہرست جاری کی گئی ہے جس میں مرزا پور میونسپل کونسل کو تیسرا مقام حاصل ہوا۔ لیکن یہاں زمین پر حالات انتہائی خراب ہیں۔ مرزا پور کے ساتھ سون بھدر اور چندولی میں مکان کے لیے 1.30 لاکھ روپے کی مدد کی جا رہی ہے۔ اس منصوبہ میں مرزا پور ضلع میں تقریباً 32 ہزار رہائش کو منظوری ملی ہے۔ اس میں سے 18674 لوگوں کو 50 ہزار کی پہلی قسط ملی ہے۔ پہلی قسط ملنے کے بعد لوگوں نے خستہ حال مکان کو توڑ کر نئے کی بنیاد ڈالی۔ لیکن اب تک مشکل سے 10 ہزار مستفدین کو آخری قسط ملی ہے۔ 20 ہزار سے زیادہ ادھوری رہائش گاہوں میں لوگ کسی طرح پلاسٹک یا ترپال ڈال کر رہنے کو مجبور ہیں۔ پکا پوکھرا باشندہ رخسانہ نے 50 ہزار روپے کی پہلی قسط جاری ہونے کے بعد اپنا کچا مکان تڑوا دیا تھا اور اب دو سال سے قسط نہیں ملنے کے سبب کنبہ کے اراکین آدھے ادھوری بنے مکان میں ہی کسی طرح رات گزارنے کو مجبور ہیں۔


ایک دیگر مستفید شیام سندر کہتے ہیں کہ ’’محکمہ کا چکر لگا کر تھک چکا ہوں۔ ابھی تک قسط جاری نہیں ہو سکی۔ گھر قرض لے کر رہنے لائق بنایا ہے۔‘‘ڈوڈا کی پروجیکٹ افسر پرتبھا شریواستو خود کی ذمہ داری سے پلہ جھاڑتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’مقامی سطح پر ڈیمانڈ بنا کر حکومت کو بھیج دی جاتی ہے۔ قسط دینے میں تاخیر مقامی سطح پر نہیں ہوتی ہے۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے آبائی ضلع گورکھپور سے ہی پی ایم رہائش منصوبہ کی شروعات کی تھی۔ تب کئی خواتین کو وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں رہائش گاہ سے متعلق سرٹیفکیٹ ملا تھا۔ ان میں سے کئی خواتین کو ابھی تک رہائش کی پہلی قسط تک نہیں ملی۔ گورکھپور میں میرا دیوی، سونی دیوی اور انگوری خاتون جیسی تمام خواتین کو منصوبہ کا فائدہ اس لیے نہیں ملا کیونکہ لیٹ لطیفی کو لے کر وہ کونسلر کے ساتھ میونسپل کارپوریشن میں شکایت کرنے چلی گئی تھیں۔ انگوری دیوی نے بتایا کہ ’’بیٹا سعودی کمانے گیا، تب چھت نصیب ہوئی۔ اب وزیر اعلیٰ کا سرٹیفکیٹ بھی کنارے رکھ دیا ہے۔‘‘


دوسری طرف میرا دیوی سخت سردی میں بھی ٹن کے شیڈ میں رہنے کو مجبور ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں سرٹیفکیٹ پانے والی سونا دیوی بھی ٹوٹے مکان میں کرانا دکان چلا کر زندگی بسر کر رہی ہیں۔ پنچایت انتخاب کے اعلان کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ بی جے پی کے ہی ایک نگر پنچایت صدر کہتے ہیں کہ ’’ہزاروں مستفیدین کی تیسری قسط نہیں آنے سے مکان کی چھت ادھوری ہے۔ سوال کرنے پر افسران کہتے ہیں کہ فنڈ کو دیہی علاقوں کی رہائش کے لیے ڈائیورٹ کر دیا گیا ہے۔‘‘

گورکھپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے مانبیلا میں بنی 1500 رہائش گاہ میں سے 1242 لوگوں کو فلیٹ کا الاٹمنٹ کیا ہے۔ 5 سے 50 ہزار روپے اتھارٹی میں جمع کرنے کے بعد بھی انھیں فلیٹ کا قبضہ نہیں مل سکا ہے۔ گورکھپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے حکومت سے مدد نہیں ملنے پر کھورابار میں مجوزہ 1500 پی ایم رہائش کے منصوبہ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے۔ اس منصوبہ میں فلیٹ پانے والے امرجیت سنگھ بتاتے ہیں کہ بینک سے قرض لے کر اتھارٹی کی قسط جمع کر دی۔ اس کے بعد بھی کرایہ کے مکان میں رہنے کی مجبوری ہے۔


گورکھپور میں بچھیا باشندہ رنجن گوڑ اور ان کے بھائی منوج کو بھی پی ایم رہائش منصوبہ کا فائدہ ملا تھا۔ لاک ڈاؤن میں آٹو فروخت ہو گیا۔ تیسری قسط کے انتظار میں چھت نہیں بن سکی۔ اب کرایہ کے مکان میں رہنے کو مجبور ہیں۔ رنجن بتاتے ہیں کہ ’’تیسری قسط کے لیے چھت ضروری ہے۔ کمائی ہے نہیں، کیسے چھت بنوائیں۔‘‘ گزشتہ سال خود گورکھپور صدر رکن اسمبلی ڈاکٹر رادھا موہن داس اگروال نے رشوت کی رقم کی بات چیت کو وائرل کیا تھا جس کے بعد سرویئر کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا۔ رکن اسمبلی کا الزام ہے کہ ’’افسروں اور ملازمین کی ملی بھگت سے بغیر رشوت کے فائل آگے نہیں بڑھ رہی۔ تیسری قسط کو لے کر سب سے زیادہ شکایتیں ہیں۔‘‘

(ہندی نیوز پورٹل ’نوجیون‘ سے لیا گیا کے. سنتوش کا مضمون)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Jan 2021, 8:11 PM