مظفر نگر میں 5 ستمبر کو ہونے والی ’کسان مہاپنچایت‘ پر بی جے پی کی گہری نظر!

مغربی اترپردیش کے کھانٹی لیڈر ڈاکٹر یشویر سنگھ کی آر ایل ڈی میں گھر واپسی کے درمیان پانچ ستمبر کو مظفر نگر میں بلائی گئی کسان مہاپنچایت پر حکمراں جماعت بی جے پی کی نظریں گڑی ہوئی ہیں۔

علامتی، تصویر یو این آئی
علامتی، تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

امروہہ: اترپردیش اسمبلی انتخابات میں یوں تو ابھی آٹھ مہینے باقی ہیں لیکن حکمراں جماعت سمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں نے ابھی سے اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ اسمبلی انتخاب میں اقتدار پر قابض رہنے کے لئے بی جے پی جنگی پیمانے پر تیاریوں میں مشغول ہے خاص طور سے کسان اکثریتی دیہی علاقوں میں ’آشیرواد یاترا‘ نکال رہی ہے وہیں مارشل قوم کہلانے والی کسان ذاتیاں ایک بار پھر بی جے پی کو کسان مخالف ٹھہراتے ہوئے متحد ہوکر بی جے پی کو سبق سکھانے کے لئے کمر کس چکی ہیں۔ بی جے پی چھوڑ کر آر ایل ڈی میں واپس کرنے والے جے این یو کے پروفیسر اور آل انڈیا کھادی گرام صنعت بورڈ کے چئیر پرسن رہے ڈاکٹر یش ویر سنگھ گاؤں گاؤں جاکر دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔

لمبے عرصے سے دہلی کے مختلف علاقوں میں سراپا احتجاج کسان اب گاؤں میں زمینی سطح پر بھی منظم ہوکر تحریک کا خاکہ تیار کررہے ہیں جس کے تحت بھارتیہ کسان یونین کی اپیل پر آنے والے پانچ ستمبر کو مظفر نگر میں بڑی تعداد میں کسان مہا پنچایت کا اعلان کیا گیا ہے جس پر حکمراں جماعت بی جے پی اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔ مغربی اترپردیش سے جاٹ سماج کے ساتھ ہی دوسرا سب سے بڑا طبقہ گوجر سماج نے بھی کمر کسنا شروع کر دیا ہے۔ اسی کڑی کے تحت بھارتیہ کسان یونین سے وابستہ گوجر لیڈروں کے ذریعہ گوجر اکثریتی علاقوں امروہہ بجنور و مرادآباد میں عوامی رابطہ کر کے پانچ ستمبر کو کثیر تعداد میں مظفر نگر پہنچنے کی اپیل کی جارہی ہے۔ اب یہ تو مستقبل ہی طے کرے گا کہ کسان سیاست اسمبلی انتخاب میں کتنا اثر انداز ثابت ہوگی۔


قابل ذکر ہے کہ مغربی اترپردیش میں جاٹ کے علاوہ گوجر سماج سب سے موثر کردار میں ہے جہاں سے گوجر سماج کے درجنوں اراکین اسمبلی ہوئے ہیں اور کئی رکن پارلیمان بن کر آتے ہیں لیکن ہمیشہ سے بی جے پی کے حق میں گوجر سماج اس بار نظراندازی کی بدولت کسان تحریک میں حصہ دار بن رہا ہے۔ اس کی مثال غازی پور سرحد سمیت مختلف مقامات پر کسان تحریر کو طاقت دینے کا کام گوجر سماج کے ذریعہ بھی کیا جا رہا ہے۔

مغربی اترپردیش کی سیاست کے گوجر سماج کے قدآور لیڈر رہے بابو حکم سنگھ اور چودھری یش پال سنگھ کے بعد تیسرا سب سے بڑا سیاسی گھرانہ جاسالا کنبہ کا کہا جا رہا ہے۔ جسالا کنبے سے وریندر سنگھ چھ بار کے ایم ایل اے، ایم ایل سی و ریاست کے کابینی وزیر رہے ہیں۔ وہ بی جے پی کے مضبوط ستون کے طور پر بھارتیہ کسان یونیشن کے گڑھ شاملی میں ضلع پنچایت صدر و مختلف بلاک پرمکھ امیدواروں کو جتانے میں کامیاب رہے ہیں اور انہوں نے بی جے پی کا وقار بچانے کا کام کیا ہے لیکن دوسری جانب ویریندر سنگھ جیسے قدآور لیڈر کو گزشتہ چار سال میں بی جے پی حکومت میں حاشیہ پر رکھا گیا ہے۔ اور انہیں راجیہ سبھا بھیجنے کی امید گوجر سماج کو تھی لیکن وہ پوری نہ ہوسکی۔ یہاں تک کہ ویریندر سنگھ جیسے قدآور لیڈر کو ایم ایل سی کے طور پر بھی قانون ساز اسمبلی نہیں بھیجا گیا جس کی وجہ سے مغربی اترپردیش کے گوجر سماج میں بی جے پی کے تئیں ناراضگی بڑھتی جارہی ہے۔


یوپی حکومت میں جہاں کئی کئی کابینی وزیر و مملکتی وزیر گوجر سماج سے ہوتے تھے وہاں صرف ایک مملکتی وزیر کا ہونا گوجر سماج کے گلے نہیں اتر رہا ہے اسی کی وجہ سے گوجر سماج حکمراں جماعت سے ناراض ہوکر کسان تحریک کا حصہ بننے جا رہا ہے جس کا اشارہ سماج کے قدآو رہنما ڈاکٹر یش ویر سنگھ نے آر ایل ڈی میں واپسی کے ذریعہ دے دیا ہے، مانا جارہا ہے کہ ان کے پارٹی بدلنے سے مغربی اترپردیش کی سیاسی حالات بدل گئے ہیں۔

آر ایل ڈی سربراہ جینت چودھری کو مغربی اترپردیش میں گوجر سماج کی ایک بڑی طاقت ساتھ ملی ہے۔ وہیں دوسری جانب سماج وادی پارٹی (ایس پی) سپریمو اکھلیش یادو بھی گزشتہ دنوں گوجر لیڈر اتل پردھان کی اپیل پر موانا میں منعقد پہلی تحریک جنگ آزادی کے نائیک کوتوال دھن سنگھ کی مورتی کی نقاب کشائی کے بہانے گوجر سماج اپنی طاقت کا احساس کرچکا ہے۔ مجموعی طور پر مغربی اترپردیش میں جاٹ کے بعد گوجر سماج پر بھی اگر بی جے پی کی ڈھیلی ہوتی پکڑ پر بی جے پی نے کنٹرول حاصل نہ کیا تو چودھری چرن سنگھ کے نعرے ’اجگر‘ مطلب اہیر، گوجر، جاٹ، راجپوت کا اتحاد مسلم سماج کے ساتھ مل کر مغربی اترپردیش کی سیاست میں ایک موثر اثر دکھانے میں کامیاب ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔