بی جے پی مغربی بنگال میں این آر سی اور یوپی میں ڈٹینشن سنٹر بنا کر ہندو-مسلم سیاست کو فروغ دے رہی: کانگریس

سریندر راجپوت نے یوپی میں ڈٹینشن سنٹر بنائے جانے کے متعلق کہا کہ ’’یوگی آدتیہ ناتھ کو 8 سال بعد دراندازوں کی یاد آئی ہے، انہیں پہلے وزیر داخلہ کے طور پر اپنی ناکامی پر استعفیٰ دینا چاہیے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>کانگریس ترجمان سریندر راجپوت (ویڈیو گریب)</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

بی جے پی اکثر دراندازوں کے معاملے کو لے کر اپوزیشن پارٹیوں کو ہدف تنقید بناتی رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایس آئی آر کو لے کر پورے ملک میں افراتفری کا ماحول ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ڈٹینشن سنٹر بنانے کا حکم دے دیا ہے۔ اس درمیان کانگریس نے جوابی حملہ کرتے ہوئے مرکز کی مودی حکومت اور اترپردیش کی یوگی حکومت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ کانگریس نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی انتخابی سیاست کے لیے اس ایشو کا استعمال کرتی ہے۔ جبکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مودی حکومت نے گزشتہ یو پی اے حکومت کے مقابلے بہت کم دراندازوں کو واپس بھیجا ہے۔

کانگریس نے دراندازوں کے مسئلہ پر زوردار جوابی حملہ کرتے ہوئے بی جے پی کی نیت اور منصوبوں پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ بی جے پی مہاراشٹر، جھارکھنڈ، دہلی اور بہار کے بعد اب مغربی بنگال میں این آر سی اور یوپی میں ڈٹینشن سنٹر بنانے کے ذریعہ ہندو-مسلم سیاست کو فروغ دے رہی ہے۔ ساتھ ہی کانگریس نے دراندازی کے مسئلہ پر مودی حکومت کے ریکارڈ کو چیلنج دیتے ہوئے کئی حقائق پیش کیے ہیں۔ کانگریس کے مطابق یو پی اے حکومت نے اپنی 10 سالہ مدت کار میں تقریباً 88 ہزار دراندازوں کو واپس بھیجا، جبکہ مودی حکومت نے 11 سالوں میں صرف 5 ہزار لوگوں کو واپس بھیجا۔


کانگریس پارٹی نے حکمراں جماعت سے سوال کیا کہ آسام میں این آر سی نافذ ہونے کے بعد 2019 سے اب تک کتنے درانداز واپس بھیجے گئے ہیں؟ کانگریس نے الزام عائد کیا کہ مودی حکومت نے تقریباً ہزاروں بنگلہ دیشیوں کو ملک میں لیا اور بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو پناہ دی۔ ساتھ ہی کہا کہ پورے ملک میں بنگالی زبان بولنے والوں کو بنگلہ دیشی بتا کر پریشان کیا جا رہا ہے۔ کانگریس کے ترجمان سریندر راجپوت نے یوپی میں ڈٹینشن سنٹر بنائے جانے کے متعلق کہا کہ ’’یوگی آدتیہ ناتھ کو 8 سال بعد دراندازوں کی یاد آئی ہے، انہیں پہلے وزیر داخلہ کے طور پر اپنی ناکامی پر استعفیٰ دینا چاہیے۔‘‘

واضح رہے کہ آسام، بنگال اور اترپردیش جیسی ریاستوں میں آئندہ انتخابات کو دیکھتے ہوئے دراندازوں اور این آر سی جیسے معاملے جلدی ختم ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ایسے میں سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ کی آئندہ سرمائی اجلاس میں یہ ایشو حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان ٹکراؤ کی وجہ بن سکتا ہے۔