بھومی پوجن: ’نرسمہا راؤ کی کابینہ ایک تجویز کو منظور کر لیتی تو بابری مسجد شہید نہ ہوتی‘

شرد پوار نے کہا تھا کہ اُس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ شنکر راؤ چوہان کی ایک تجویز کو اگر نرسمہا راؤ کی قیادت والی مرکزی کابینہ منظور کر لیتی تو بابری مسجد شہید ہونے سے بچ جاتی

6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے اوپر کھڑے  ہندوتواوادی کار سیوک
6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے اوپر کھڑے ہندوتواوادی کار سیوک
user

قومی آوازبیورو

ممبئی: اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں تقریباً 27 سال قبل ہندوتوا تنظیموں نے تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا اور اس واقعہ نے ہندوستان کی سیاست کو پوری طرح بدل کر رکھ دیا۔ جس وقت بابری مسجد کو شہید کیا گیا اس وقت مرکز میں کانگریس کی نرسمہا راؤ کی قیادت والی حکومت برسر اقتدار تھی اور اس پر بھی کئی الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔

بابری مسجد کی 6 دسمبر 1992 کو ہونے والی شہادت کے حوالہ سے حال ہی میں این سی پی سربراہ شرد پوار نے بھی اپنے ایک بیان میں نرسمہا راؤ کی ایک لاپروائی کی جانب اشارہ کیا تھا۔ خبر رساں ایجنسی یو این آئی کے مطابق شرد پوار نے کہا کہ اُس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ شنکر راؤ چوہان کی ایک تجویز کو اگر نرسمہا راؤ کی قیادت والی مرکزی کابینہ منظور کر لیتی تو بابری مسجد شہید ہونے سے بچ جاتی۔


واضح رہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے قبل شنکر راؤ چوہان نے یوپی کی کلیان سنگھ حکومت کو فی الفور برخاست کرنے کی تجویز مرکزی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی تھی۔ راشٹر وادی کانگریس پارٹی (این سی پی) کے قومی صدر شرد پوار نے ممبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ بیان دیا تھا۔

شرد پوار نے کہا، ’’سال 1992 میں بی جے پی اور اس کی ہمنوا ہندوتواوادی تنظیمیں رام مندر کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں، جس کی وجہ سے ملک کے حالات نے کافی سنگین رُخ اختیار کرلیا اور ملک میں سماجی اور سیاسی افراتفری کا ماحول بن چکا تھا۔ ان حالات کو بہتر بنانے کے لئے اس وقت مرکزی کابینہ کا اجلاس منعقد کیا گیا تھا اور شنکر راؤ چوہان نے کابینہ کی میٹنگ میں یہ تجویز پیش کی۔‘‘


شرد پوار شنکرراؤ، ڈاکٹر رفیق زکریا سمیت مہاراشٹر کے چار سیاستدانوں کی صد سالہ یوم پیدائش کے سلسلہ میں منعقد کی گئی تقریب میں اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ سابق مرکزی وزیر داخلہ شنکرراؤ چوہان نے کابینہ کے اجلاس میں واضح طور پر کہا تھا کہ کلیان سنگھ حکومت ان ہندو انتہا پسند تنظیموں کی حامی ہے، جوکہ بابری مسجد کو گرانے اور رام مندر کی حمایت میں تحریک چلائے ہوئے ہیں، اس لیے کلیان سنگھ حکومت کی برخاستگی سے ہی حالات بہتر ہوں گے، لیکن اس وقت نرسمہا راؤ کابینہ نے چوہان کے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی، کیونکہ وہ سپریم کورٹ کو یقین دلاچکے تھے کہ مسجد کی حفاظت کے لیے بھرپور انتظامات کیے جائیں گے۔

شرد پوار نے مزید کہا کہ شنکر راؤ چوہان کی تجویز پر غور کرتے ہوئے اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تجویز صحیح اور معقول تھی اور اُس وقت کلیان سنگھ سرکار کو برخاست کر دیا جاتا تو آج بابری مسجد اپنی جگہ برقرار رہتی اور اس کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور خونریزی بھی بچائی جا سکتی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Aug 2020, 4:11 PM