مویشی لے جا رہے مسلم ڈرائیور کی پٹائی، مدد مانگنے پر پولس نے درج کیا ’گئوکشی‘ کا مقدمہ

مسلم ڈرائیور عابد علی کا کہنا ہے کہ ’’مویشیوں کو زراعت کے لیے لے جایا جا رہا تھا، نہ کہ کسی بوچڑ خانے میں۔ میرے پاس یہ دکھانے کے لیے سبھی دستاویز تھے کہ ٹرانسپورٹیشن میں کچھ بھی غیر قانونی نہیں۔‘‘

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

تنویر

فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے والے کچھ لوگوں نے کرناٹک میں ایک مسلم ڈرائیور کی صرف اس لیے پٹائی کر دی کیونکہ وہ اپنی گاڑی پر مویشی لے کر جا رہا تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے جب مسلم ڈرائیور نے مدد کے لیے پولس میں اپیل کی تو الٹے متاثرہ کے خلاف ہی مبینہ گئوکشی کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ یہ واقعہ کرناٹک کا ہے جہاں گئوکشی پر پابندی عائد کیے جانے والے نئے آرڈیننس کے تحت پہلا معاملہ درج کیا گیا ہے۔

میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق عابد علی نامی شخص مبینہ طور پر اپنے ٹرک میں 12 سے 15 مویشیوں کو رانی بینّور سے منگلورو لے جا رہا تھا۔ اس کی پٹائی 8 جنوری کو شرنگیری تعلقہ میں تانیکوڈو کے پاس نامعلوم لوگوں کے ایک گروپ نے کر دی تھی۔ عابد علی کی نہ صرف ہندوتوا غنڈوں نے زبردست پٹائی کی تھی بلکہ اس کے پاس موجود نقدی بھی چھین لی۔


انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘ میں اس واقعہ کے تعلق سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جب اس واقعہ کی اطلاع عابد علی نے مقامی لوگوں کی مدد سے شرنگیری پولس کو دی، تو وہ موقع پر پہنچی اور حملہ آوار کے خلاف شکایت درج کرنے کے ساتھ ساتھ عابد علی کے خلاف گئوکشی معاملہ کو لے کر بھی مقدمہ درج کر لیا۔ چکمنگلور کے ایس پی اکشے ایم ہکے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ڈرائیور عابد علی کے خلاف گئوکشی سے متعلق نئے آرڈیننس کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔

اس پورے واقعہ کے تعلق سے عابد علی نے ’دی ہندو‘ کو بتایا کہ وہ ہویری ضلع کے رانی بینّور سے منگلورو جا رہا تھا جب اس پر نامعلوم لوگوں نے حملہ کر دیا۔ اس نے کہا کہ ’’منگلورو کے ایک شخص نے رانی بینّور میں مویشیوں کو خریدا تھا اور انھوں نے میرے ٹرک کو کرایہ پر لیا۔ میں نے راستے میں ان کی کار کو فالو کیا اور آگے بڑھتا رہا۔‘‘ عابد علی آگے بتاتے ہیں کہ ’’8 جنوری کی صبح تانیکوڈو میں ایک جگہ اپنی گاڑی کھڑی کی۔ یہاں اچانک لوگوں کے ایک گروپ نے لاٹھی اور ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کر دیا اور 22 ہزار روپے نقد کے ساتھ ساتھ دو موبائل فون بھی چھین کر بھاگ گئے۔‘‘


عابد علی کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کی مدد سے اس نے پولس سے رابطہ کیا۔ پولس موقع پر پہنچی اور شرنگیری اسپتال لے گئی۔ بعد میں عابد کو شیوموگا واقع میک گین اسپتال میں منتقل کر دیا گیا اور حملہ آوروں کے خلاف متاثرہ نے شکایت بھی درج کرائی۔ لیکن اس درمیان پولس نے عابد کے خلاف بھی گئوکشی قانون کے تحت معاملہ درج کر لیا۔ اس وقت عابد اپنے آبائی شہر داونگیرے میں علاج کرا رہے ہیں۔ ہندوتوا غنڈوں کی پٹائی میں انھیں کئی مقامات پر فریکچر آئے ہیں اور عابد کا کہنا ہے کہ کم از کم سات آٹھ مہینے تک وہ کام پر نہیں جا پائے گا۔ اپنی فیملی میں واحد کمانے والا عابد پریشان ہے کہ بچے بیوی کے کھانے پینے کا انتظام کیسے ہو پائے گا۔

ٹرک میں سوار مویشیوں کے تعلق سے عابد علی نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس آر ایم سی یارڈ افسران کے ذریعہ جاری کردہ پرمٹ اور رانی بینّور میں ایک ویٹنری ڈاکٹر کے ذریعہ جاری کیا گیا سرٹیفکیٹ بھی موجود تھا اور مویشیوں کو ٹرک پر لے جانے کے لیے سبھی ضروری دستاویزات تھے، پھر بھی لوگوں نے اس کی پٹائی کر دی اور بعد میں پولس نے بھی مقدمہ درج کر لیا۔ عابد کا کہنا ہے کہ ’’مجھے بتایا گیا تھا مویشیوں کو زراعت کے کام کے لیے لے جایا جا رہا تھا، نہ کہ کسی بوچڑ خانے میں۔ میرے پاس یہ دکھانے کے لیے سبھی دستاویز تھے کہ ٹرانسپورٹیشن میں کچھ بھی غیر قانونی نہیں۔‘‘


’دی ہندو‘ نے اس تعلق سے شرنگیری کے پولس انسپکٹر سدرمپّا سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ معاملہ درج کر لیا گیا ہے اور تفتیش جاری ہے۔ جانچ مکمل ہونے کے بعد ہی کسی طرح کی کارروائی کی جائے گی۔ عابد علی پر ہوئے حملہ کے بارے میں پولس افسر نے کہا کہ ملزمین میں سے ایک کی شناخت ہوئی تھی جسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ گرفتار شخص کا نام بتانے سے پولس افسر نے انکار کر دیا، لیکن عابد علی تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہے کہ سات آٹھ مہینے تک اسے آرام کرنا ہوگا تو فیملی کی دیکھ بھال کون کرے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔