’2000 کے نوٹ پر روک نوٹ بندی نہیں، کرنسی مینجمنٹ ہے‘، آر بی آئی نے ہائی کورٹ میں اپنے فیصلے کا کیا دفاع

عرضی دہندہ کی دلیل ہے کہ 5-4 سال بعد نوٹوں کی واپسی ناانصافی، منمانی اور پبلک پالیسی کے خلاف ہے، یہ آر بی آئی کے حلقہ اختیار سے بھی باہر ہے۔

<div class="paragraphs"><p>2000 کے نوٹِ تصویر آئی اے این ایس</p></div>

2000 کے نوٹِ تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

آر بی آئی کے ذریعہ 2000 کے نوٹ پر روک لگانے کے فیصلے کو چیلنج پیش کرنے والے عرضی دہندہ وکیل رجنیش بھاسکر گپتا کے ذریعہ داخل مفاد عامہ عرضی پر آج سماعت ہوئی۔ اس دوران ہائی کورٹ میں سنٹرل بینک نے اپنے فیصلے کا دفاع کیا۔ آر بی آئی (ریزرو بینک آف انڈیا) نے جمعہ کے روز دہلی ہائی کورٹ کو بتایا کہ 2000 روپے کے نوٹوں کو چلن سے واپس لینے کا اس کا فیصلہ صرف کرنسی مینجمنٹ کی پریکٹس ہے، نہ کہ نوٹ بندی۔

مفاد عامہ عرضی میں دلیل دی گئی ہے کہ آر بی آئی ایکٹ کے مطابق اس طرح کا فیصلہ لینے کے لیے آزاد اتھارٹی کی کمی ہے۔ بینک کی طرف سے پیش سینئر وکیل پراگ پی ترپاٹھی نے عدالت کے سامنے گزارش کی کہ اس معاملے کی سماعت بعد کی تاریخ میں کی جائے کیونکہ بنچ نے عرضی دہندہ وکیل اشونی اپادھیائے کے ذریعہ اسی طرح کی مفاد عامہ عرضی میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔


پراگ ترپاٹھی نے ہائی کورٹ سے کہا کہ یہ ایک کرنسی مینجمنٹ پریکٹس ہے اور ڈیمونیٹائزیشن نہیں ہے۔ بنچ نے پہلے ایک معاملے میں فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ میں مشورہ دے رہا ہوں کہ اس حکم کو آنے دیں اور اس کے بعد ہم اس پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ عرضی دہندہ نے دلیل دی کہ 5-4 سال بعد نوٹوں کی واپسی ناانصافی، منمانی اور پبلک پالیسی کے برعکس ہے۔ عرضی دہندہ نے کہا کہ یہ آر بی آئی کے حلقہ اختیار سے باہر ہے۔ آر بی آئی ایکٹ میں ایسا کوئی انتظام نہیں ہے کہ آر بی آئی آزادانہ طور سے اس طرح کا فیصلہ لے سکے۔

عدالت نے دونوں فریقین کی دلیلیں سننے کے بعد معاملے کی آئندہ سماعت 29 مئی کو مقرر کی ہے۔ دونوں پارٹیوں کو معاملے میں ایک مختصر نوٹ پیش کرنے کو کہا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ آر بی آئی کے وکیل نے عدالت کو مطلع کیا ہے کہ اسی موضوع کے ساتھ ایک اور عرضی پر سماعت ہوئی ہے۔ وہ پیر کو لسٹنگ کے لیے گزارش کر رہے ہیں۔ پیر کو فہرست بند کیا جائے۔


مفاد عامہ عرضی میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ زیر غور عرضی یہ ظاہر کرنے میں ناکام رہا ہے کہ بینک نوٹوں کو واپس لینے کا فیصلہ مرکزی حکومت کے ذریعہ لیا گیا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ آر بی آئی نے عوام پر پڑنے والے ممکنہ اثرات پر مناسب غور و خوض کیے بغیر بینک کے نوٹوں کو چلن سے واپس لینے کا اتنا اہم اور منمانا قدم اٹھانے کے لیے شفاف کرنسی پالیسی کے علاوہ کوئی وضاحت نہیں دی ہے۔

آر بی آئی کی شفاف کرنسی پالیسی کے التزامات کا تذکرہ کرتے ہوئے مفاد عامہ عرضی بتاتی ہے کہ کسی بھی قدر کے خراب، نقلی یا گندے نوٹوں کو عام طور پر چلن سے واپس لے لیا جاتا ہے اور نئے چھپے نوٹوں کے ساتھ بدل دیا جاتا ہے۔ عرضی میں 2000 روپے کے بینک نوٹ کو واپس لینے کے اثر پر فکر ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ چھوٹے کاروباریوں اور دکانداروں نے پہلے ہی اسے منظور کرنا بند کر دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔