آسام شہریت معاملہ: ’متنازعہ سرکلر کس کے اشارے پر جاری ہوا؟‘

سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کرکے آسام میں این آر سی کے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر سے تحریری جواب طلب کرکے چار ہفتے کے اندر ان سے یہ بتانے کو کہا ہے کہ انہوں نے اجازت لئے بغیر اس طرح کا سرکلر کیوں جاری کیا؟

تصویر بشکریہ ڈی ڈبلیو
تصویر بشکریہ ڈی ڈبلیو
user

یو این آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آسام کے نئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر ہتیش دیو شرما کے ذریعہ این آر سی کے بارے میں جاری متنازعہ نوٹیفیکیشن کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی طرف سے داخل پٹیشن پرنوٹس جاری کرکے آسام میں این آر سی کے اسٹیٹ کوآرڈینیٹرسے چار ہفتے کے اندر تحریری جواب طلب کیا ہے۔ یہ بات جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز میں کہی گئی ہے۔

ریلیز کے مطابق سپریم کورٹ کی چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے نوٹس جاری کرکے آسام میں این آر سی کے اسٹیٹ کوآرڈینیٹرسے تحریری جواب طلب کرکے چار ہفتے کے اندر ان سے یہ بتانے کو کہا ہے کہ انہوں نے اجازت لئے بغیر اس طرح کا سرکلر کیوں جاری کیا؟، عدالت نے یہ بھی کہا کہ سرکلر جاری کرنے سے پہلے آپ کو این آر سی مانیٹرنگ پینل سے اجازت لینی چاہیے تھی۔ جمعیۃ علمائے ہند نے یہ عرضی وکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی کے توسط سے داخل کی تھی اور سینئرایڈوکیٹ کپل سبل جرح کے لئے جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے، پٹیشن میں عدالت سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ اس طرح کا نوٹیفکیشن جاری کرکے درحقیقت اسٹیٹ کوآرڈینیٹرنے عدالت کی طرف سے وقت وقت پر دی گئی ہدایات اور فیصلوں کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے، اس لئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔


پٹیشن میں مزید کہا گیا تھا کہ این آر سی کا پوراعمل سپریم کورٹ کی نگرانی میں مکمل ہوا ہے، ہتیش دیو شرما ایسا کرکے سپریم کورٹ کی اب تک کی تمام حصولیابیوں پر پانی پھیر دینا چاہتے ہیں۔ جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء نے یہ دلیل بھی دی کہ 23جولائی 2019 کو اپنے ایک اہم فیصلے میں عدالت این آر سی میں شامل ناموں کی ری ویریفیکیشن کی عرضی مسترد کرچکی ہے، اسی طرح 7 اگست2019 کو عدالت نے اس وقت کے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر پرتیک ہزیلا اور رجسٹرار آف انڈیا کے ایک اخباری انٹرویو دینے پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ وہ آئندہ عدالت کی اجازت کے بغیر پریس سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ فاضل ججوں نے ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ آپ لوگ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہی این آرسی کا کام دیکھ رہے ہیں، اس لئے آپ لوگ جو کچھ کہیں گے اسے عدالت کی منشاء یا رائے سمجھا جائے گا چنانچہ ایسا کرکے آپ لوگ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں، اس پر ان دونوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ وہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء نے ان دونوں فیصلوں کو بنیاد بناکر یہ سوال اٹھا یا ہے کہ جب عدالت پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ اب کوئی ری ویریفیکیشن نہیں ہوگا تو اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے کس کی اجازت سے ری ویریفیکیشن کا سرکلرجاری کیا؟

واضح رہے کہ یہ نوٹیفیکشن این آر سی سے ان لوگوں کو نکال باہر کرنے کے لئے جاری کیا گیا تھا جو مشتبہ ہیں یا ڈی ووٹر ہیں یا پھر فارن ٹریبونل نے جن کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، نوٹیفیکشن میں ریاست کے تمام اضلاع کے رجسٹرار آف سٹیزن رجسٹریشن سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ نہ صرف ایسے لوگ بلکہ ان کے اہل خانہ (اجداد) کے نام بھی این آر سی سے ہٹا دیں۔ پچھلی سماعت پر جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء نے سوال کیا تھا کہ کیا اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے عدالت کو اعتماد میں لیکر ری ویریفیکیشن کروایا ہے؟ اگر نہیں تو کیا ایسا کرکے انہوں نے عدالت کی صریحاً توہین نہیں کی؟ یہی نہیں 13 اگست 2019 اپنے ایک فیصلے میں عدالت نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ وہ بچہ جو 2004 سے قبل پیداہوا ہے اگر اس کے والدین میں سے کسی ایک کا نام این آرسی میں شامل ہوگا تو اسے ہندوستانی سمجھا جائے گا۔ مذکورہ پٹیشن اس فیصلے کے بھی سراسرخلاف ہے۔ کیونکہ اس سرکلرمیں کہا گیا ہے کہ جو لوگ مشتبہ ہیں، ڈی ووٹر ہیں یا پھر فارن ٹریبونل میں جن کے معاملہ التوا میں ہیں وہ سب غیر ملکی ہیں۔ اس وقت عدالت نے درخواستوں میں ترمیم کرنے کو کہا تھا تاکہ توہین عدالت کی درخواست کو ہٹایا جاسکے۔ کل کی سماعت میں بنچ نے ترمیم شدہ درخواست کو مرکزی معاملہ (این آرسی مانیٹرنگ بنچ) کی درخواستوں میں ضم کردیا اور اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کر دیا۔


جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وکلاء نے پوری تیاری کے ساتھ عرضی داخل کی ہے جس میں اہم نکتوں کی طرف عدالت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے اور پہلی ہی نظرمیں لگتا ہے کہ نئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے اس معاملہ میں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ عدالت کا اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کے خلاف نوٹس جاری کرنا اور یہ بتانے کی ہدایت دینا کہ انہوں نے اس طرح کا سرکلر جاری کرنے سے پہلے عدالت سے اجازت کیون نہیں لی، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا قدم غلط ہے، لیکن، اپنی جگہ یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر انہوں نے کس کے اشارے یا حکم پر ایسا کیا؟

مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ این آرسی کے پورے عمل کی سپریم کورٹ خود نگرانی کر رہی ہے، یہاں تک کہ رجسٹرارآف انڈیا اور اس وقت کے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے جب ایک انگریزی کے اخبارسے گفتگو کی تھی تو اس پر عدالت نے ان کی سخت سرزنش کی تھی۔ عدالت دوبارہ این آرسی کرانے یا ری ویریفیکیشن کی ضرورت کو پہلے ہی مسترد کرچکی ہے، ایسے میں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ اب جب کہ این آرسی کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور اس سے باہر رہ گئے تقریباً 19 لاکھ لوگوں کا مسئلہ باقی رہ گیا ہے، اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے اپنے طور پر ری ویریفیکشن کروا کر اس طرح کا حکم نامہ جاری کرکے ایک بار پھر پوری ریاست میں ڈر اور خوف کی فضا پیدا کرنا چاہ رہے ہیں اور ان لوگوں کو بھی کسی نہ کسی طرح این آرسی سے نکال باہر کر دینا چاہ رہے ہیں جو اپنی شہریت ثابت کرچکے ہیں۔


مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند مذہب سے اوپر اٹھ کر صرف انسانیت کی بنیاد پر آسام شہریت معاملے کو لیکر ابتدا ہی سے قانونی جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ یہ مسئلہ ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے جس میں ایک چھوٹی سی غلطی سے پورے پورے خاندانوں کی زندگیاں تباہ برباد ہوسکتی ہیں، اور اس صورت میں ہمارے ملک میں ایک بڑا انسانی بحران بھی پید اہوسکتاہے، انہوں نے کہا کہ جب گوہاٹی ہائی کورٹ نے پنچائیت سرٹفیکٹ کو شہریت کا ثبوت ماننے سے انکار کردیا تھا تو آسام میں تقریباً 48 لاکھ شادی شدہ خواتین کی زندگیوں پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا، اس فیصلے سے تقریباً 25 لاکھ مسلم اور 23 لاکھ ہندوخواتین کی شہریت چھن جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ ایسے وقت میں یہ جمعیۃعلماء ہند تھی جو اس اہم مسئلے کو سپریم کورٹ لیکر گئی تھی، سپریم کورٹ نے جمعیۃعلماء ہند کے موقف کو تسلیم کرکے پنچائیت سرٹیفیکت کو شہریت کا ثبوت مان لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد میں نے اپنے ایک ردعمل میں کہا تھا کہ میری پوری جماعتی زندگی میں اس سے پہلے مجھے اتنی خوشی کبھی نہیں محسوس ہوئی جتنی کی آج ہو رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 31 Jan 2021, 6:11 PM