کسی ملزم کی بغیر وجہ بتائے گرفتاری بنیادی حقوق کی خلاف ورزی، پولیس کو قانون پر عمل کرنے کی سپریم کورٹ کی نصیحت

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ گرفتار کیے گئے شخص کو گرفتاری کی بنیاد بتانا رسمی نہیں بلکہ لازمی آئینی ضرورت ہے۔ عدالت نے گرفتاری کی وجہ تحریری طور پر فراہم کرنے کو زیادہ بہتر بتایا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا /آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ آف انڈیا /آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

سپریم کورٹ نے جمعہ کو اپنے ایک تاریخی فیصلے میں کہا ہے کہ کسی بھی ملزم کو گرفتاری کی وجہ بتانا کوئی رسمیات نہیں بلکہ لازمی آئینی ضرورت ہے۔ جسٹس ابھئے ایس اوکا اور جسٹس نوگمئی کاپم کوٹیشور سنگھ کی بنچ نے کہا ہے کہ پولیس کے ذریعہ حکم پر عمل نہ کرنا آئین کی دفعہ 22 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔

جج نے کہا، "گرفتار کیے گئے شخص کو گرفتاری کی بنیاد کے بارے میں اطلاع کرنا رسمی نہیں بلکہ لازمی آئینی ضرورت ہے۔ دفعہ 22 کو آئین کے حصہ 3 میں بنیادی حقوق کے عنوان کے تحت شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح گرفتار اور حراست میں لیے گئے شخص کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے جلد سے جلد گرفتاری کی وجہ کے بارے میں مطلع کیا جائے۔"

جسٹس این کے سنگھ نے کہا کہ گرفتاری کی بنیاد کے بارے میں صرف گرفتار شخص کو نہیں بلکہ اس کے ذریعہ نامزد دوستوں، رشتہ داروں یا دیگر لوگوں کو بھی بتانا چاہے تاکہ وہ قانونی عمل کے توسط سے گرفتاری کو چیلنج کرکے اس کی رہائی کو یقینی کر سکیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ پنکج بنسل بمقابلہ حکومت ہند کے معاملے میں، اس نے مشورہ دیا تھا کہ گرفتاری کی بنیاد کو مطلع کرنے کا مناسب اور اور مثالی طریقہ گرفتاری کی بنیاد کو تحریری طور پر فراہم کرنا ہے۔ حالانکہ اس میں کہا گیا ہے کہ گرفتاری کی بنیاد کو تحریری طور سے مطلع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر تحریری طریقہ پر عمل کیا جاتا ہے تو "غیر-عمل کے بارے میں تنازعہ بالکل بھی پیدا نہیں ہوگا۔"


جسٹس اوکا نے کہا، "بھلے ہی گرفتاری کی بنیاد تحریری طور سے دینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اسے تحریری شکل میں دینے سے تنازعہ ختم ہو جائے گا۔ پولیس کو ہمیشہ دفعہ 22 کی ضروریات پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔