واہ مودی جی!کیا راجیو گاندھی اور ہیمنت کرکرے شہید نہیں ہیں!

ہر سیاستداں اقتدار میں آنے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھاتا ہے لیکن اقتدار کا مقصد اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں بلکہ عوام کی بہبود سے زیادہ ملک کو مہذب بنانا ہونا چاہیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

سال 2014 کے عام انتخابات میں آر ایس ایس کی سرپرستی میں بی جے پی اور اس کے رہنما نریندر مودی نے اقتدار کے لئے جو کچھ کیا اس کو معاف تو نہیں کیا جا سکتا لیکن پھر بھی یہ سوچ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ اقتدار کے حصول کے لئے سیاسی پارٹیاں ایسا کچھ کرتی ہیں۔ یہ پارٹیاں عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے جہاں عوام کو سبز باغ دکھاتی ہیں وہیں اپنے مخالفین پر طرح طرح کے الزامات بھی لگاتی ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پانچ سال کے اپنے اقتدار میں حکومتوں سے غلطیاں سر زد ہوتی ہیں اور جمہوریت کی یہی خوبصورتی ہے کہ وہ یہ موقع فراہم کرتی ہے۔

سال 2014 میں مودی کی قیادت میں بی جے پی نے جہاں اقتدار کے حصول کے لئے ہر شخص کے بینک اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپے پہنچانے کا واعدہ ہو، نوجوانوں کو سالانہ دو کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ ہو، کسانوں کی آمدنی کو دو گنا کرنے کا وعدہ ہو یا ایک فوجی کی شہادت کے بدلے میں پاکستان کے دس فوجیوں کے سر لانے کا وعدہ ہو، سب کے سب یہ وہ سبز باغ تھے جن کے جھانسے میں ہندوستان کی بھولی بھالی عوام آگئی۔


سبز باغ دکھانے کے علاوہ دوسرا حربہ جو سنگھ کی قیادت میں اپنایا گیا اس میں گائے کے تحفظ کے نام پر پورے ملک میں ایک ماحول بنایا گیا پھر انا ہزارے، اروند کیجریوال جیسے رہنماؤں کو رام لیلا میدان میں جمع کر کے میڈیا کے ذریعہ پورے ملک میں بدعنوانی مخالف لہر چلائی گئی جس میں بابا رام دیو اور شری شری روی شنکر کی مدد لی گئی۔ ان سبز باغ اور حکومت کے خلاف چلائی گئی لہر کا عوام کے ذہنوں پر اتنا زبردست اثر ہوا کہ اس نے سال 2014 میں مودی کو مکمل اکثریت سے اقتدار سونپ دیا۔

اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو یہ امید تھی کہ حکومت انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کو پورا کرے گی اور عوام کے مسائل کو حل کرے گی، لیکن ہوا کچھ گجرات جیسا ہی۔ گائے کی حفاظت کے نام پر لوگوں کو مارا جانا شروع ہو گیا۔ معیشت کے مسائل حل کرنے کے بجائے ایسے فیصلے لئے جس سے اپنی پارٹی اور چند سرمائے داروں کے علاوہ کسی کو فائدہ نہیں ہوا۔ نوٹ بندی کے ذریعہ گھریلوں صنعت کی کمر توڑ دی۔ دہشت گردی کو روکنے کے نام پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی(آئی ایس آئی) کو ملک میں آکر تحقیقات کرنے کی تاریخی اجازت دے دی۔ نوجوانوں کو روزگار دینے کے بجائے گھریلو صنعت کو تباہ کر کے بے روزگاری میں اضافہ کر دیا۔ کسانوں کے حالات بد سے بدتر کر دیئے۔ کل ملا کر ہوا یہ کہ عوام کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے۔ پانچ سال پورے ہونے پر عام انتخابات سے پہلے پورے ملک میں قوم پرستی کا جنون پھیلا دیا تاکہ عوام کا ذہن ان کے بنیادی مسائل سے ہٹ جائے۔


یہ تمام چیزیں قابل برداشت تھیں اور ان کے لئے مودی حکومت کو معاف کیا جا سکتا تھا لیکن برسر اقتدار مودی کی قیادت والی بی جے پی نے دو ایسے گناہ کیے ہیں جن کی کوئی معافی نہیں ہے۔ پہلے نمبر پر اس پارٹی نے بھوپال سے ملک میں نفرت بڑھانے کے لئے اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے دہشت گردی میں ملوث ملزمہ پرگیہ ٹھاکر کو اپنا امیدوار بنایا، امیدوار بنتے ہی ملزمہ پرگیہ ٹھاکر نے بیان دیا کہ سابق اے ٹی ایس سربراہ شہید ہیمنت کرکرے کی موت ان کی بددعا کا نتیجہ تھی۔ ملزمہ نے اپنے بیان سے اس شہید کی بے عزتی کی جس نے دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دے دی۔ پرگیہ ٹھاکر کو اگر بددعا دینی تھی تو اپنے افسر کے بجائے پاکستان کے حافظ سعید اور مسعود اظہر کو دیتی۔ اس عمل کے لئے بی جے پی اور پرگیہ ٹھاکر کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔

دوسرا بڑا گناہ نہیں بلکہ جرم ہے جو بی جے پی نے کیا، وہ یہ کہ ملک کے سابق وزیر اعظم شہید راجیو گاندھی جن کو ملک دشمن قووتوں نے اپنی دہشت گردی کا شکار بنایا تھا، ان کو کہا کہ ان کا خاتمہ بدعنوان نمبر ایک کے طور پر ہوا۔ یہ بیان کسی اور نے نہیں دیا بلکہ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے دیا ہے۔ اقتدار میں بنے رہنے کے لئے اگر کوئی شخص اپنے شہید افسر اور شہید وزیر اعظم کی بے عزتی کرے تو اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ملک صحیح راستے پر نہیں جا رہا ہے۔ ویسے تو مودی بیرون ممالک میں اپنے ملک کی بے عزت کرتے رہے ہیں مگر یہاں تو انہوں نے حد پار کر دی۔


ان اقدام سے تو یہی اشارے ملتے ہیں کہ بی جے پی کے اقتدار میں واپس آنے کی راہیں بند ہوتی نظر آ رہی ہیں لیکن اگر کسی گٹھ جوڑ کے ذریعہ یہ واپس برسر اقتدار میں آ گئی تو ملک کے لئے اچھے دن تو یہ پارٹی اور اس کی قیادت کبھی لائے گی نہیں، لیکن برے دن ضرور لے آئے گی۔ کیونکہ شہیدوں کی بے عزتی سے ملک کی تہذیب کو سخت نقصان ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 May 2019, 1:10 PM