اقلیت مخالف شبیہ گھریلو کمپنیوں کو نقصان پہنچائے گی، رگھورام راجن نے کیا خبردار

رگھورام راجن نے کہا کہ اگر ہمیں ایسی جمہوریت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اپنے تمام شہریوں کے ساتھ احترام کے ساتھ برتاؤ کرتی ہے تو ہماری عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔

 رگھورام راجن / تصویر آئی اے این ایس
رگھورام راجن / تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

ہندوستان میں اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے کی خبروں کے درمیان ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھورام راجن نے خبردار کیا ہے کہ ملک کے لیے 'اقلیتی مخالف' شبیہ ہندوستانی مصنوعات کی مارکیٹ کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جس کے نتیجے مین غیر ملکی حکومتیں ہم پر اعتماد کرنا بند کر دیں گی۔ انہوں نے یہ بیان ایک انگریزی اخبار کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔

رگھو رام راجن نے یہ بات دہلی کے جہانگیر پوری میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد غیر قانونی تعمیرات ہٹانے کی کارروائی کے بعد کہی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر ہمیں ایسی جمہوریت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اپنے تمام شہریوں کے ساتھ احترام کے ساتھ برتاؤ کرتی ہے تو ہماری عزت میں اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے غریب ممالک ہمارے بہت زیادہ ہمدرد ہو جاتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اس طرح کے عزت والے ماحول میں صارفین کہتے ہیں کہ وہ اس ملک کا سامان خریدیں گے جو صحیح کام کر رہا ہو اور اس نظریہ کی وجہ سے ہماری مارکیٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘


انہوں نے مزید کہا کہ صرف صارفین ہی یہ انتخاب نہیں کرتے ہیں کہ کس کی سرپرستی کی جائے، بلکہ بین الاقوامی تعلقات میں گرم جوشی کا فیصلہ بھی ایسے تاثرات سے ہوتا ہے، کیونکہ حکومتیں اس بات پر فیصلہ کرتی ہیں کہ آیا کوئی ملک ’’قابل اعتماد پارٹنر‘‘ ہے یا نہیں، وہ اپنی اقلیتوں کو سنبھالتا ہے یا نہیں۔

ماہر اقتصادیات نے واضح الفاظ میں مزید کہا کہ چین اویغوروں اور ایک حد تک تبتیوں کے ساتھ نا زیبا سلوک کی وجہ سے خراب شبیہ کا شکار ہے، جبکہ یوکرین کو بہت زیادہ حمایت حاصل ہے، کیونکہ صدر ولودیمیر زیلینسکی کو ان خیالات کا دفاع کرنے والے شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو ایک جمہوری ہے۔


رگھورام راجن نے کہا کہ سروسز کے شعبے کی برآمد ہندوستانیوں کے لیے ایک بڑا موقع پیش کرتا ہے اور ملک کو اس سے فائدہ اٹھانا پڑے گا، راجن نے کہا کہ ہمیں رازداری پر مغرب کی حساسیت کے بارے میں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

گھریلو معاملات پر دیگر تبصروں میں راجن نے کہا کہ ہندوستانی انتظامیہ کو تین زرعی قوانین جیسے فیصلوں سے بچنے کے لیے کلیدی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تبدیلیوں پر تبادلہ خیال کرکے گورننس کے چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا۔ واضح رہے کسانوں کے ایک سال سے زیادہ چلے احتجاج کے بعد مرکز نے گزشتہ سال تینوں قانون کو منسوخ کر دیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔