راجستھان میں بی جے پی کے لئے بڑا جھٹکا ہے انتا ضمنی انتخاب، کانگریس نے درج کی بڑی جیت

انٹا اسمبلی ضمنی انتخاب میں کانگریس قائدین نے مسلسل موقع پر جاکر مہم چلائی۔ راجستھان کانگریس کے صدر گووند سنگھ ڈوٹا سرا نے اس جیت کوعوام کا بی جے پی کوجواب بتایا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر:سوشل میڈیا</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

بہار میں بڑی جیت کے بعد بی جے پی کے جوش و خروش کے درمیان انٹا ضمنی انتخاب میں ہار بڑا جھٹکا دینے والی ہے۔ کانگریس نے انٹا اسمبلی ضمنی انتخاب میں حکمراںبی جے پی کو شکست دے کر سبھی کو حیران کردیا۔ اس شکست نے بی جے پی کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کانگریس لیڈر اور سابق وزیر پرمود جین بھایا نے بی جے پی امیدوار مورپال سمن کو 15,612 ووٹوں سے شکست دی۔ یہ سیٹ پہلے بی جے پی کی تھی اس لئے نتیجہ اور بھی حیران کرنے والا ہے۔

اس دوران بی جے پی نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری اسکیموں کی تشہیر ٹھیک سے نہیں ہوئی اس لئے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ حالانکہ ماہرین سیاست کی مانیں تو شکست کی اصل وجوہات ناقص حکمت عملی، اندرونی خلفشار اور مضبوط امیدوار کے انتخاب میں تاخیر تھی۔ یہ سیٹ اس وقت خالی ہوئی جب بی جے پی ایم ایل اے کنور لال مینا کو ایک سرکاری اہلکار کو دھمکی دینے کے معاملے میں مجرم ٹھہرایا گیا۔ کانگریس نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور فوری طور پر پرمود جین بھایا کو ٹکٹ دے دیا، جو اس سے پہلے بھی دو بار یہ سیٹ جیت چکے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی نے ٹکٹ طے کرنے میں وقت ضائع کیا۔


انٹا ،سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے اور ان کے بیٹے دشینت سنگھ کا علاقہ مانا جاتا ہے۔ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ راجے شروع میں زیادہ فعال نہیں تھے۔ کچھ بی جے پی کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ شاید شکست کی ذمہ داری لینا نہیں چاہتی تھیں۔ آخر میں بی جے پی نے ان کی پسند کے امیدوارمورپال سمن کو ٹکٹ دیا، جوعلاقے میں معروف نہیں ہیں۔ بی جے پی کے پاس مینا کی بیوی کو ٹکٹ دینے کا بھی مضبوط آپشن تھا، جس سے ووٹروں کی ہمدردی حاصل ہو سکتی تھی لیکن پارٹی کی گروپ بندی کی وجہ سے یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا۔

نریش مینا نے آزاد امیدوار کے طور پر مقابلہ کرتے ہوئے بی جے پی کے ووٹ شیئر میں نمایاں نقب زنی کی۔ وہ پہلے بھی دو بڑے انتخابات میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کر چکے ہیں حالانکہ انہیں بھی تنازعات کا سامنا کرنا پڑا ، جیسے ایس ڈی ایم کو تھپڑ مارنے کے جرم میں 8 ماہ جیل جانا، نوجوان مینا ووٹر انہیں پسند کرتے ہیں لیکن دیگر کمیونٹیز میں ان کا اثر بہت کم ہے۔


انتخابی نتائج کے بعد یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہاں واقعی وسندھرا راجے کا اثر کم ہو رہا ہے۔ انٹا راجے کے حلقے کے بہت قریب ہے، اس کے علاوہ بی جے پی کے کئی سینئرلیڈر جو وسندھرا راجے گروپ میں نہیں آتے، وہ انتخابی مہم میں نظر ہی نہیں آئے۔ اس سے صاف نظرآتا ہے کہ راجستھان بی جے پی میں گروپ بندی کی جڑیں گہری ہیں۔ راجے کے قریبی ایم ایل اے پرتاپ سنگھ سنگھوی نے توکھل کرپارٹی قیادت پرشکست کا الزام لگایا۔

ادھروزیراعلیٰ بھجن لال شرماصرف دوبارمہم کرنے پہنچے۔ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کراس سیٹ پر راجے کو آگے رکھا۔ اگر سیٹ جیت جاتی توبی جے پی کو فائدہ ہوتا اوراگر ہارتی تو راجے کی طاقت کم ہوتی اورآخرکاروہی ہوا۔


بی جے پی کا مضبوط گڑھ مانی جانے والی انٹا سیٹ پرکانگریس امیدوار اور سابق وزیر پرمود جین بھایا نے بی جے پی کے مورپال سمن کو 15,612 ووٹوں سے شکست دی۔ وہیں کانگریس قائدین نے مسلسل موقع پر جاکر مہم چلائی۔ راجستھان کانگریس کے صدر گووند سنگھ ڈوٹا سرا نے اس جیت کوعوام کا بی جے پی کوجواب بتایا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔