’اور آخر کار زمین اڈانی کو سونپ دی گئی‘، کانگریس نے بتائی بارڈر سیکورٹی کے اصولوں میں تبدیلی کے پیچھے کی کہانی
کانگریس کا کہنا ہے کہ اصولوں میں راحت نہ صرف ہند-پاک سرحد پر دی گئی، بلکہ بنگلہ دیش، چین، میانمار اور نیپال سے ملحق سرحد پر بھی دی گئی، یہ صرف اس لیے کیا گیا تاکہ اڈانی کو زمین سستے میں دی جا سکے۔
پی ایم مودی اور گوتم اڈانی، تصویر @INCIndia
گجرت کے کَچھ میں گوتم اڈانی ’انرجی پارک‘ بنانے والے ہیں۔ اس کے لیے انھیں سستی شرح پر زمین حاصل ہوئی ہے، جس میں مرکزی حکومت کا اہم کردار سامنے آ رہا ہے۔ کانگریس نے اس معاملے میں مرکزی حکومت اور پی ایم مودی کو ہدف تنقید بنایا ہے اور کہا ہے کہ ’اپنے دوست‘ کو فائدہ پہنچانے کے لیے وزیر اعظم نے بارڈر سیکورٹی کے اصول تبدیل کر دیے۔ بارڈر سیکورٹی کے اصول کیوں تبدیل کیے گئے اور اس کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہیں، اس کی پوری کہانی کانگریس نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دی ہے۔
ویڈیو کانگریس ترجمان سپریا شرینیت کی ہے جو بتا رہی ہیں کہ نریندر مودی نے اپنے دوست اڈانی کو فائدہ پہنچانے کے لیے قومی سلامتی سے کتنا بڑا سمجھوتہ کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ’’قومی سلامتی اور سرحدوں کی حفاظت کے مدنظر ہند-پاک سرحد سے 10 کلومیٹر دور تک موجودہ گاؤں اور سڑکوں کو چھوڑ کر کسی بھی بڑی تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن مودی کے ’متر‘ اڈانی کَچھ کے میدان میں ہند-پاک سرحد سے محض ایک کلومیٹر دور بہت بڑے سولر اور وِنڈ پاور پلانٹ کی تعمیر کر رہے ہیں۔‘‘
اس بارے میں تفصیلی جانکاری پیش کرتے ہوئے سپریا کہتی ہیں کہ ’’دراصل ہوا ایسا کہ گجرات کے کَچھ علاقہ میں پبلک سیکٹر کی کمپنی ایس ای سی آئی کو گجرات حکومت نے ایک تجدید توانائی پارک کے لیے 23 ہزار ہیکٹیئر اراضی الاٹ کی تھی۔ لیکن ایک رخنہ تھا۔ ایس ای سی آئی کو الاٹ زمین ہند-پاک سرحد کے بہت قریب تھی، اور وہاں دفاعی پابندیوں کا مطلب تھا کہ اس زمین پر صرف وِنڈ ٹربائن ہی بن سکتا تھا، سولر پینل نہیں لگ سکتا تھا۔ ایس ای سی آئی کا کہنا تھا کہ ان بندشوں کی وجہ سے یہ پروجیکٹ ہونے میں دقت ہے۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’’بس پھر کیا تھا، اپریل 2023 میں گجرات کے افسران نے وزیر اعظم دفتر کو خط لکھ کر اس معاملے کو وزارت دفاع کے ساتھ اٹھانے کو کہا۔ گجرات حکومت کے سولر اور وِنڈ تجویز پر تبادلہ خیال کے لیے 21 اپریل 2023 کو دہلی میں ایک خفیہ سرکاری میٹنگ طلب کی گئی۔ اس میں فوجی آپریشن کے ڈائریکٹر جنرل، گجرات اور نیو اینڈ رینوئبل انرجی وزارت کے افسران کے علاوہ ایس ای سی آئی نے بھی حصہ لیا۔‘‘
کانگریس ترجمان سپریا شرینیت نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سینئر فوجی افسران کے ذریعہ بین الاقوامی سرحد پر ٹینک موومنٹ اور سیکورٹی نگرانی میں سولر پینلوں سے دقتیں آنے کے اندیشے ظاہر کیے تھے۔ لیکن ڈیولپرس نے یقین دلایا کہ ’دشمن کی ٹینک سرگرمیوں کو دیکھنے میں سولر پینل رخنہ انداز نہیں بنیں گے۔ لیکن سولر پینل کے سائز میں تبدیلی سے متعلق فوجی افسران کی گزارش کو ڈیولپرس نے خارج کر دیا تھا۔ اس میٹنگ کے آخر میں وزارت دفاع نے سولر پینلوں کو 2 کلومیٹر اور وِنڈ ٹربائنوں کو پاکستان سے ایک کلومیٹر کے قریب بنانے کی اجازت دے دی۔
آگے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کانگریس ترجمان نے کہا کہ ’’8 مئی 2023 تک مودی حکومت نے اس فیصلے کو رسمی شکل بھی دے دی تھی۔ یہی نہیں، اصولوں میں تبدیلی کی اطلاع دینے کے لیے سبھی وزارتوں کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، اور پھر ہوا کھیل۔ ایس ای سی آئی کی سبھی فکروں کو دور کرنے کے باوجود 3 ماہ بعد کمپنی نے وزیر برائے تجدید توانائی کی ہدایت پر زمین واپس کر دی۔ اس کے بعد گجرات حکومت نے اسے پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کے لیے ریزرو کرنے کے اپنے پہلے کے فیصلے کو پلٹ دیا، اور پھر اسے اڈانی کو الاٹ کر دیا۔ تو اس طرح مرکز کی مودی حکومت اور گجرات کی بی جے پی حکومت نے پوری سانٹھ گانٹھ سے سازش تیار کر، سارے اصول و قوانین بدل کر زمین بالآخر اڈانی کو سونپ ہی دی۔‘‘
سپریا شرینیت نے پورے معاملے کے پس پشت موجود کہانی بیان کرنے کے بعد کہا کہ ’’کمال کی بات یہ ہے کہ اصولوں میں راحت نہ صرف ہند-پاک سرحد پر، بلکہ بنگلہ دیش، چین، میانمار اور نیپال سے ملحق سرحد پر بھی دے دی گئی۔ اتنا بڑا اسٹریٹجک فیصلہ جو کہ ہماری قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، وہ صرف اڈانی کو سستی زمین دینے کے ارادہ سے لیا گیا۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’بارڈر سیکورٹی کے پیمانوں اور اصولوں میں بدلاؤ کر کے نریندر مودی نے ہماری جغرافیائی سالمیت کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ یہ ہے ان کا فرضی نیشنلزم اور نقلی حب الوطنی۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔