کرناٹک میں امول بمقابلہ نندنی کا تنازعہ جاری، کانگریس نے کہا- ’ہمیں گجرات ماڈل کی ضرورت نہیں‘

کرناٹک میں، جہاں انتخابات کا اعلان کیا جا چکا ہے، دودھ کے برانڈ امول اور نندنی کی بحث شروع ہو گئی ہے۔ کمارسوامی کے بعد کانگریس نے بھی کہا ہے کہ بی جے پی نے نندنی برانڈ کو ختم کرنے کی سازش کی ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ ٹوئٹر</p></div>

تصویر بشکریہ ٹوئٹر

user

قومی آوازبیورو

بنگلورو: تمل ناڈو میں دہی پر تنازع کے بعد اب ریاست کرناٹک میں، جہاں انتخابات کا اعلان کیا جا چکا ہے، دودھ کے برانڈ امول اور نندنی کو لے کر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ جے ڈی ایس کے ایچ ڈی کمارسوامی کے بعد کانگریس نے بھی گجرات کی امول کمپنی کے ریاست میں داخلے کو بی جے پی کی سازش قرار دیا ہے۔ کانگریس کے ریاستی صدر ڈی کے شیوکمار نے کہا کہ نہ صرف کانگریس بلکہ دیگر پارٹیاں بھی اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ دریں اثنا، بنگلورو کی ہوٹل مالکان کی انجمن نے امول کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا ہے صرف اور صرف نندنی کی مصنوعات کو استعمال کیا جائے گا اور ریاست کے کسانوں کی حمایت کی جائے گی۔

ڈی کے شیوکمار نے کہا کہ ’’نندنی امول سے بہتر برانڈ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حقوق، ہماری زمین، ہماری مٹی، ہمارا پانی اور ہمارا دودھ محفوظ رہے۔ میرے کسانوں کو اچھی قیمت ملنی چاہیے۔ نندنی ہماری شان ہے۔ ہمارے لوگ نندنی سے پیار کرتے ہیں۔ ہم گجرات ماڈل نہیں چاہتے۔ ہمارے پاس کرناٹک ماڈل ہے۔ ہر ریاست کی اپنی الگ ثقافت اور روایت ہے۔ ہمیں اپنے کسانوں کی حفاظت کرنی ہے۔‘‘


وہیں، کانگریس لیڈر سدارمیا نے کہا ’’وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نندنی برانڈ کو بند کرانا چاہتے ہیں، جو کرناٹک کے کسانوں کی لائف لائن ہے۔ امول برانڈ کو ریاست پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ میری اپیل ہے کہ ریاست کے لوگ امول پروڈکٹس کا بائیکاٹ کریں۔‘‘ ادھر، امول کا یہ بائیکاٹ سوشل میڈیا پر بھی شروع ہو گیا اور ہفتے کے روز ٹویٹر پر ہیش ٹیگ ’گو بیک امول‘ اور ’سیو نندنی‘ ٹرینڈ کر رہے تھے۔

دریں اثنا، کانگریس جنرل سکریٹری اور کرناٹک کے پارٹی انچارج رندیپ سرجے والا نے ٹوئٹ کیا ’’کرناٹک دودھ فیڈریشن کو گجرات کے امول کو بیچنے کی بی جے پی کی سازش اب بے نقاب ہو گئی ہے۔ جبکہ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے اس معاملے میں کہا ’’امول برانڈ کو لے کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نندنی برانڈ کو ملک میں پہلے نمبر پر لانے کے لیے اسے مزید مسابقتی بنائیں گے۔ اپوزیشن اس معاملے پر سیاست کر رہی ہے۔‘‘


قبل ازیں، تمل ناڈو میں اس بات پر دیہی کے پیکٹ پر ہندی میں ’دہی‘ لکھے جانے پر تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔ خیال رہے کہ دہی کو کنڑ میں موسارو اور تمل زبان میں تائر کہتے ہیں۔ پہلے دہی کے پیکٹوں اور کپوں پر یہی لکھا جاتا تھا لیکن مارچ میں فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا (ایف ایس ایس اے آئی) نے جنوبی ہندوستان میں دہی بنانے والے کوآپریٹیو کو دہی کے پیکٹوں پر صرف ہندی یعنی دہی لکھنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ریاست میں سیاست شروع ہو گئی۔

تمل ناڈو کے سی ایم ایم کے اسٹالن نے مرکز پر ہندی کو مسلط کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا ’’ہندی کو مسلط کرنے کی بے شرمی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ہمیں دہی کے ایک پیکٹ پر بھی ہندی کا لیبل لگانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تمل اور کنڑ کو ہماری اپنی ریاستوں میں کمزور کیا گیا ہے۔ ہماری مادری زبانوں کو ڈھٹائی سے نظرانداز کرنا اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اس کے ذمہ داروں کو ہمیشہ کے لیے جنوب سے نکال دیا جائے۔ تاہم، تنازعہ کے شدت اختیار کرنے پر ایف ایس ایس اے آئی نے اپنا حکم واپس لے لیا اور ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں دہی کے پیکٹوں پر علاقائی زبان کے استعمال کی اجازت دی گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔