’کووڈ کا بایولوجیکل ہتھیار کی شکل میں استعمال نہیں کیا گیا‘، کورونا سے متعلق امریکی خفیہ ایجنسیوں کا انکشاف

رپورٹ کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ تقریباً سبھی خفیہ ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ سورس-کوو-2 جینیاتی طور پر انجینئرڈ نہیں تھا۔

<div class="paragraphs"><p>کورونا وائرس، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

کورونا وائرس، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

کووڈ-19 کے وجود میں آنے پر امریکی حکومت کی نئی خفیہ رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں یہ بات صاف نہیں ہو سکی ہے کہ دنیا بھر میں 76.8 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرنے والی اور 69 لاکھ سے زیادہ اموات کے لیے ذمہ دار وبا کی شروعات کسی تجربہ گاہ میں ہوئے رساؤ کا نتیجہ تھی یا کسی متاثرہ جانور سے وائرس انسانوں تک پہنچ گیا۔ حالانکہ سبھی کا ماننا ہے کہ اس کا بایولوجیکل ہتھیار کی شکل میں استعمال نہیں کیا گیا۔ وبا کے دو سال سے زیادہ وقت بعد کووڈ-19 کے وجود پر عدم وضاحت برقرار ہے۔ یہ عالمی سطح پر سائنسدانوں اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ ایک سیاسی اور سائنسی بحث کا موضوع رہا ہے کہ کورونا وائرس کا ذریعہ ایک متاثرہ جانور تھا یا پھر یہ تجربہ گاہ میں کسی حادثہ کا نتیجہ تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اہم بات یہ ہے کہ تقریباً سبھی خفیہ ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ سورس-کوو-2 جینیاتی طور پر انجینئرڈ نہیں تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ بیشتر ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ سورس-کوو-2 تجربہ گاہ کے موافق نہیں تھا، حالانکہ کچھ بھی طے کرنے میں اہل نہیں ہیں۔ سبھی خفیہ ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ سورس-کوو-2 کو بایولوجیکل ہتھیار کی شکل میں تیار نہیں کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے پایا کہ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے یعنی چینی فوج) اور ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی (ڈبلیو آئی وی) کے ذریعہ کی گئی کچھ تحقیق میں کورونا وائرس سمیت کئی وائرس کے ساتھ کام شامل تھا، لیکن ایسا کوئی معلوم وائرس نہیں تھا جسے سورس-کوو-2 کا جد امجد مانا جا سکے۔


جانوروں کے نمونے اور جینیاتی تجزیہ سمیت تجربہ گاہ میں کی گئی تحقیق کا اعتراف کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ ڈبلیو آئی وی کی قبل از وبا تحقیق میں سورس-کوو-2 یا ایک قریبی جد امجد شامل تھا، نہ ہی کوئی واضح ثبوت ہے کہ ایک خاص تحقیق سے متعلق حادثہ وبا سے پہلے ڈبلیو آئی وی ملازمین کے ساتھ پیش آیا تھا، جو کووڈ وبا کا سبب بن سکتا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔