شاعروں میں علامہ اقبال اور کھانے میں مچھلی... منموہن سنگھ کو مزید کیا کیا چیزیں تھیں پسند؟
معیشت کی تعلیم حاصل کرنے والے منموہن سنگھ کے پسندیدہ رائٹر فرانسیسی سیاستداں وکٹر ہیوگو تھے، منموہن اکثر ہیوگو کے نام اور ان کے اقوال کا تذکرہ کرتے تھے۔

منموہن سنگھ، تصویر@kharge
ماہر معیشت منموہن سنگھ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا ہے۔ کل ان کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔ ان کا 33 سالہ سیاسی سفر ایک روشن باب کی مانند رہا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو، وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے سرکردہ لیڈران ہی نہیں... دنیا بھر کے سیاسی و سماجی لیڈران کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی عظیم ہستیاں منموہن سنگھ کے انتقال پر اظہارِ رنج و غم کر رہی ہیں۔ منموہن سنگھ کم گو تھے، لیکن ان کی زبان سے جب بھی کوئی الفاظ نکلتے تھے تو وہ اہمیت کے حامل ہوتے تھے۔ آئیے یہاں جانتے ہیں کہ خاموشی کے ساتھ ملک کے لیے کام کرنے والے اس لائق و فائق ہستی کو کھانے میں کیا پسند تھا اور ان کے پسندیدہ رائٹر کون تھے، کس شاعر کی شاعری وہ پسند کرتے تھے اور کون سا رنگ ان کے دل کے قریب تھا۔
یہ بھی پڑھیں : منموہن سنگھ جب بولتے ہیں تو پوری دنیا سنتی ہے: براک اوباما
پسندیدہ کھانا:
منموہن سنگھ بہت زیادہ کھانے پینے والے انسان نہیں تھے، اور نہ ہی انھیں گوشت خوری عزیز تھی۔ طویل وقت تک منموہن سنگھ کے میڈیا صلاح کار رہے سنجے بارو نے اپنی کتاب ’ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ میں لکھا ہے کہ 2009 میں دوسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد منموہن نے کچھ صحافیوں کو وزیر اعظم رہائش پر کھانے کے لیے مدعو کیا۔ صحافی جب آئے تو منموہن نے بہت تھوڑا کھایا، جس پر سب دیکھتے رہے۔ منموہن نے اس کے بعد خود کہا کہ میں کم ہی کھانا پسند کرتا ہوں۔ کھانے کے بعد منموہن چائے یا کافی لینا پسند کرتے تھے۔
بارون کے مطابق منموہن کھانے میں چپاتی اور پراٹھا ہی اکثر لیا کرتے تھے۔ مچھلی کھانا انھیں سب سے زیادہ پسند تھا، لیکن کبھی کبھی۔ منموہن ذیابیطس کی وجہ سے میٹھا نہیں کھاتے تھے۔ ان کی شریک حیات گرشرن کور بھی یہ یقینی بناتی تھیں کہ منموہن میٹھا نہ کھا پائیں۔ منموہن کو چاول کڑھی اور اچار کھانا بھی پسند تھا۔ منموہن کی بیٹی دمن سنگھ اپنی کتاب میں اس بات کا تذکرہ کرتی ہیں۔ دمن کے مطابق منموہن سنگھ پنجابی اسٹائل میں تیار چاول-کڑھی اور اچار کھانا بہت پسند کرتے تھے۔ وہ اپنے کنبہ کے ساتھ 2 ماہ میں ایک بار فیملی ڈنر پر بھی جاتے تھے۔ اس دوران منموہن بنگالی مارکیٹ کا چاٹ کھانا نہیں بھولتے تھے۔
پسندیدہ رائٹر:
معیشت کی پڑھائی کرنے والے منموہن سنگھ کے پسندیدہ رائٹر فرانس کے سیاستداں اور رائٹر وکٹر ہیوگو تھے۔ منموہن اکثر ہیوگو کے نام اور ان کے اقوال کا ذکر کرتے تھے۔ 1991 میں بجٹ پیش کیے جانے کے بعد ہیوگو کے ایک قول کے ذریعہ منموہن نے پوری دنیا کو ایک پیغام دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ زمین پر کوئی بھی شخص اس نظریہ کو نہیں روک سکتا جس کا وقت آ گیا ہے۔ منموہن اس بات کو کئی بار دہراتے رہے۔ 2006 میں صحافی چارلی روز کو دیے ایک انٹرویو میں منموہن نے کہا تھا کہ ہیوگو کی باتیں ہندوستان کے لیے موزوں ہے۔ منموہن نے کہا تھا کہ ہندوستان کو اب پوری دنیا میں ابھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے، ہندوستان کی طاقت کا اندازہ اب دنیا کو ہے۔
پسندیدہ شعبہ:
منموہن سنگھ کی شہرت بھلے ہی وزیر مالیات کے طور پر ملی تھی، لیکن ان کی معاشی لبرلائزیشن پالیسی کا آج بھی تذکرہ ہوتا ہے۔ منموہن سنگھ نے لائسنس راج کو ختم کیا تھا جس سے سرمایہ کاری کے مواقع بڑھے۔ حالانکہ شعبہ مالیات سے زیادہ منموہن کو شعبۂ تعلیم میں کام کرنا پسند تھا۔ ریڈیف کو دیے ایک انٹرویو میں منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کو کون سا محکمہ چاہیے، تو میں جواب دوں گا ’محکمہ تعلیم‘۔ میں چاہتا ہوں کہ نئے لوگوں کے لیے کام کروں۔ 1996 میں دیے گئے اس انٹرویو میں منموہن سنگھ نے وزیر اعظم بننے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی، اور آگے چل کر ان کی یہ خواہش پوری بھی ہوئی۔
پسندیدہ رنگ:
منموہن سنگھ کا پسندیدہ رنگ نیلا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر نیلی پگڑی پہنے نظر آتے تھے۔ 2013 میں کیمبرج میں انھوں نے اس تعلق سے انکشاف بھی کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’شروع سے ہی نیلا رنگ میرا پسندیدہ ہے۔ اس رنگ کی پگڑی پہننے کی وجہ سے میرے دوست مجھے نیلی پگڑی والے بلاتے تھے۔‘‘ منموہن نے یہ بھی بتایا تھا کہ نیلے رنگ کی پگڑی پہننے سے انھیں کیمبرج کی بھی یاد آتی رہتی ہے، کیونکہ کیمبرج کا بھی ’تھیم کلر‘ بلو یعنی نیلا ہی ہے۔
پسندیدہ شاعر:
منموہن سنگھ کے پسندیدہ شاعر کی بات کریں تو وہ شاعر مشرق علامہ اقبال تھے۔ پارلیمنٹ میں منموہن سنگھ نے ان کے 2 مشہور اشعار کے ذریعہ اپوزیشن کو خاموش کرنے کا کام کیا تھا۔ راجیہ سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا ’کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری، صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا‘۔ کچھ ایسا ہی شاعرانہ انداز انھوں نے لوک سبھا میں اختیار کیا تھا جب اُس وقت کی اپوزیشن لیڈر سشما سوراج نے منموہن حکومت پر حملہ کرتے ہوئے شاعری کے ذریعہ پوچھا تھا کہ:
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کی قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے
اس کے جواب میں منموہن نے کہا تھا:
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ
ویسے منموہن نے کچھ دوسرے شعراء کے اشعار بھی کئی مواقع پر کہے ہیں۔ مثلاً 2013 میں صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ کی تحریک کے بحث کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے مرزا غالب کا شعر ’ہم کو ان سے ہے وفا کی امید/ جو نہیں جانتے وفا کیا ہے‘ پڑھا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔