بی جے پی کے انتخابی منشور سے رہا سہا جوش بھی غائب، نیشلزم تیرا ہی سہارا

بی جے پی کے انتخابی منشور میں کوئی بھی ایسا منصوبہ نظر نہیں آیا جس کو عوام کی فلاح کے لئے کوئی بڑا انقلابی قدم کہا جا سکے یا اس میں کچھ ایسا نیا ہو جو وہ گزشتہ 5 سالوں سے نہیں کہہ رہے ہوں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

’ہاؤ از دا جوش‘؟ بی جے پی کے انتخابی منشور ’سنکلپ پتر‘ کے اجراء کے بعد عوام کا سارا جوش ختم ہو گیا ہے۔ بڑے تام جھام کے ساتھ جاری کیا گیا انتخابی منشور ملک کے عوام کے لئے انتہائی مایوسی لے کر آیا کیونکہ اس میں ان کو کوئی بھی ایسا منصوبہ نظر نہیں آیا جس کو عوام کی فلاح کے لئے کوئی بڑا انقلابی قدم کہا جا سکے یا اس میں کچھ نیا ہو جو وہ گزشتہ پانچ سالوں سے نہیں سن رہے ہیں۔

2019 کے عام انتخابات کے لئے جاری کیے گئے انتخابی منشور میں جن باتوں کا ذکر بی جے پی رہنماؤں یا خود وزیر اعظم مودی نے کیا اس میں کوئی بھی چیز نئی نظر نہیں آئی۔ سشما سواراج نے اپنے خطاب میں وزیر اعظم مودی کی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری حکومت جاری ہے اس لئے ہم اس دستاویز کو اپنا انتخابی منشور نہیں کہہ رہے بلکہ اس کو حکومت کا ’سنکلپ پتر‘ کہہ رہے ہیں‘‘۔ رہنماؤں کے خطاب سے ایسا محسوس ہوا جیسے بی جے پی کی یہ تقریب مودی کی تعریف کے لئے منعقد کی گئی ہو کیونکہ ہر بی جے پی رہنما نے ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔

بی جے پی نے انتخابی منشور کے ذریعہ یہ واضح کر دیا کہ وہ 2019 کے عام انتخابات مدوں یا اپنی کارکردگی پر نہیں لڑنے جا رہی بلکہ وہ قوم پرستی (نیشنلزم) کے نام پر لڑنے جا رہی ہے۔ اس کی وضاحت وزیر اعظم مودی سمیت تمام بی جے پی رہنماؤں کے خطاب سے صاف نظر آیا۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ویسے یہ انتخابی منشور 2024 تک کے لئے ہے اور اس کا سب سے اہم اور کلیدی مدا نیشنلزم ہے۔ انہوں نے کہا وہ درمیان میں یعنی 2022 میں اپنے اس ’سنکلپ پتر‘ پر غور ضرور کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ2022 میں آزادی کی تحریک ’انگریزوں ہندوستان چھوڑو‘ (کوٹ انڈیا موومنٹ) کے 75 سال پورے ہو رہے ہیں اس لئے 2022 تک انہوں نے اپنی حکومت کے لئے 75 ہدف رکھیں ہیں جن کا وہ 2022 میں جائزہ لیں گے۔

وزیر اعظم نے سابقہ حکومتوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کو پانچ سال کے دور اقتدار میں وہ کرنا پڑا جو گزشتہ پچاس سالوں میں نہیں ہوا۔ وزیر اعظم کے اس جملہ کا صاف مطلب ہے کہ ان کی حکومت نے پچاس سال کا کام پانچ سال میں مکمل کیا یعنی بہت تیز کام کیا، لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے ایک ایسا جملہ کہا جو اس سے میل کھاتا نظر نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر یعنی 2047 میں وہ چاہیں گے کہ ہندوستان ترقی پزیر ممالک کی صف سے باہر ہو کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آ جائے۔ اگر اتنا تیز کام کرنے والا وزیر اعظم جو پچاس سال کا کام پانچ سالوں میں نپٹا نے کی اہلیت رکھتا ہو اور ملک کو آج سے 28 سال بعد بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے میں ان کو پورا یقین نہیں ہو تو اس پر سوال ضرور کھڑے ہوں گے۔ کانگریس کی تنقید میں وزیر اعظم مودی سب کچھ بھول جاتے ہیں۔

وزیر اعظم مودی نے انتخابی منشور جاری ہونے کے موقع پر بھی ایک لمبی انتخابی تقریر کی، لیکن ان کے کسی بھی جملہ سے بی جے پی کارکنان میں جوش نہیں پیدا ہو پایا۔ حسب عادت وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر کے بعد ذرائع ابلاغ سے کوئی بات نہیں کی جبکہ کانگریس صدر راہل گاندھی نے ذرائع ابلاغ سے نہ صرف بات کی تھی بلکہ ان کے ہر سوال کا جواب دیا تھا۔

بی جے پی کے انتخابی منشور کے تعلق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ اس میں وہی پرانی باتیں ہیں جیسے یونیفارم سیول کوڈ کو لاگو کرنا، آرٹیکل 35 اے کا خاتمہ، آرٹیکل 370 کا خاتمہ، رام مندر تعمیر کرنے کی بات ضرور کی گئی ہے، لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے لئے تمام امکانات تلاش کیے جائیں گے یعنی رویہ میں نرمی، صفائی تحریک، پانی کی قلت کے لئے نئی وزارت اور کسانوں کے کریڈٹ کارڈ پر ایک لاکھ روپے تک کوئی سود نہیں جیسی بات جو اپنے آپ میں متنازعہ ہے۔

کانگریس نے جس طرح ایک سال سے زیادہ وقت لگاکر لوگوں سے بات کر کے اپنا انتخابی منشور تیار کیا ہے اور سماج کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی رائے دی ہے اس کے برعکس بی جے پی نے یہ کام صرف گزشتہ تین ماہ میں کیا ہے۔ جس کمیٹی نے یہ منشور تیار کیا ہے اس کے سربراہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ تھے۔ جیٹلی نے اپنے انتخابی منشور کے ساتھ کانگریس کے انتخابی منشور کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔