’مودی حکومت چوری کے بعد اب ڈکیتی پر آمادہ ہے‘، ووٹر ادھیکار یاترا سے ملکارجن کھڑگے کا خطاب
کھڑگے نے کہا کہ نتیش خود چل کر ہم لوگوں کے پاس آئے تھے، لیکن وہ ڈر کر پلٹ گئے۔ ان میں ناانصافی کے خلاف لڑنے کی طاقت نہیں تھی۔ سماجوادی نظریہ چھوڑ کر وہ آر ایس ایس-بی جے پی کے پیچھے چلے گئے۔

16 دنوں پر مشتمل کانگریس کی ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ آج عظیم الشان ’ووٹر ادھیکار مارچ‘ اور جلسۂ عام کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔ اس جلسۂ عام سے انڈیا بلاک میں شامل کئی پارٹیوں کے سرکردہ لیڈران نے خطاب کیا اور مودی حکومت کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو بھی نشانے پر لیا۔ تقریب سے کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے نے بھی خطاب کیا جس میں ووٹر ادھیکار یاترا میں شامل مہاگٹھ بندھن یعنی انڈیا بلاک کے سبھی ساتھیوں کو مبارکباد پیش کی۔
اس موقع پر انھوں نے کہا کہ ’’15 (آج سولہواں دن تھا) دنوں تک چلی اس یاترا نے پورے ملک کو بیدار کر دیا۔ اس میں بی جے پی نے رکاوٹ ڈالنے کی کوششیں کیں، ہمارے کانگریس دفتر پر حملہ ہوا، لیکن بہار کے لوگوں نے یاترا کو پوری طرح کامیاب بنایا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ملک میں جب بھی کمزور طبقات کے حقوق پر خطرہ پیدا ہوتا ہے، راہل گاندھی ان کی آواز بلند کرتے ہیں۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘، ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ اور ’جئے باپو، جئے بھیم، جئے سنویدھان‘، اور اب یہ یاترا اس سلسلہ کا ایک حصہ ہے۔ یہ یاترا بہا رمیں جہاں سے گزری کروڑوں لوگوں نے سڑکوں پر آ کر حمایت دی۔ ملک بھر میں جمہوریت کے حامی ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ پور دنیا میں اس یاترا کی آواز پہنچی۔‘‘
تقریب میں موجود لوگوں کی زبردست بھیڑ کو دیکھتے ہوئے کھڑگے نے کہا کہ ’’یہاں ہمیں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بہار کی عوام اس ’ڈبل انجن کی بدعنوان حکومت‘ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کام کرے گی۔ ایس آئی آر کے ایشو پر اپوزیشن صحیح تھا، یہ سپریم کورٹ نے بھی مانا۔ ہم چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ میں بہار کی ووٹ چوری پر بحث ہو۔ مکمل اپوزیشن تحریک کرتا رہا، لیکن یہ الیکشن کمیشن کو بچاتے رہے اور بحث نہیں ہونے دی۔‘‘
بہار کی تاریخ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کھڑگے کہتے ہیں کہ ’’بہار نے بحران میں ہمیشہ اپنے علم، طاقت اور جذبہ سے ملک کی رہنمائی کی ہے۔ مودی حکومت 11 سالوں سے ’قسطوں میں جمہوریت‘ کو ختم کرتی جا رہی ہے۔ اس کے لیے چوری کے نئے نئے طریقے اختیار کرتی ہے۔ پہلے ملک کی کروڑوں روپے کی غریبوں کی دلت اپنے چند خاص دوستوں میں تقسیم کر دی۔ منافع والے پبلک سیکٹر ان کو سونپ دیے، پھر ان کی دولت سے اپوزیشن کی حکومتیں گرا دیں۔‘‘ انھوں نے حملہ آور رخ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب چوری کے بعد یہ ’ڈکیتی‘ پر آمادہ ہیں۔ نتیش جی خود چل کر ہم لوگوں کے پاس آئے تھے، لیکن وہ ڈر کر پلٹ گئے۔ ان میں ناانصافی کے خلاف لڑنے کی طاقت نہیں تھی۔ سماجوادی نظریہ کو چھوڑ کر وہ آر ایس ایس-بی جے پی کے پیچھے چلے گئے۔‘‘
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کانگریس صدر نے کہا کہ ’’بہار کی عوام نے سمجھ لیا ہے کہ یہ ’چور چور موسیرے بھائی‘ ہیں۔ بہار ہی نہیں، کشمیر سے کنیاکماری تک پورے ملک میں ان کی حقیقت لوگوں نے جان لی ہے۔ آپ کچھ لوگوں کو زیادہ وقت کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں، کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں، لیکن سبھی کو ہر وقت بے وقوف نہیں بنا سکتے۔‘‘ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ ’’مودی جی ’انتخابی وزیر اعظم‘ ہیں۔ ہمیشہ الیکشن موڈ میں رہتے ہیں۔ بوگس ووٹروں سے لے کر جھوٹی تشہیر، جھوٹے اعلانات، جھوٹے منصوبے اور جملہ بازی کرتے ہیں۔ ملک کی سیاست پر قبضہ کرنے کے لیے مودی جی نے ای ڈی، سی بی آئی، آئی ٹی کا استعمال کر رہے ہیں، لیکن جب ایکسپوز ہو گئے تو اپوزیشن حکومتوں کو ڈرانے کے لیے پارلیمنٹ میں نیا بل لے آئے۔ ہم لوک پال بل اسی کام کے لیے لائے تھے، تو 11 سال بعد نیا بل صرف ڈرانے اور لوگوں کا دھیان بھٹکانے کے لیے لائے۔‘‘
وزیر اعظم نریندر مودی کے انتخابی وعدوں کو یاد کرتے ہوئے کھڑگے نے کہا کہ ’’یہ پہلے بدعنوانی اور بلیک منی ختم کرنے کی بات کرتے تھے۔ دونوں بڑھتا ہی رہا۔ حال میں مودی جی نے کہا کہ ’گجرات میں سرمایہ کاری کیجیے، کرنسی کالی ہو یا سفید فرق نہیں پڑتا‘۔ یہی ان کی سوچ ہے۔‘‘ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ ’’مودی جی آج بھی بیرون ملک میں ہیں۔ دنیا بھر میں پھرتے رہتے ہیں، لیکن منی پور جلتا رہا، نہیں گئے۔ ہماچل، اتراکھنڈ، راجستھان، مہاراشٹر اور کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں سیلاب اور آفات میں وہ کہیں نظر نہیں آتے۔ مودی جی کے ساتھی ٹرمپ کو ’سناتنی‘ بتاتے تھے، آج امریکہ کے سبب کروڑوں غریب ماہی گیر، کسان اور کاریگروں کی روزی روٹی خطرے میں ہے۔‘‘
بہار میں موجود مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کھڑگے کہتے ہیں کہ ’’بہار میں نوجوانوں کی فکر ان کو بالکل بھی نہیں ہے۔ ہجرت کی فکر بھی نہیں ہے۔ 11 سالوں سے یہ بہار میں چینی فیکٹری کھولنے کی بات ہی کر رہے ہیں، لیکن شروع ایک بھی نہیں کی۔‘‘ پھر وہ عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں ’’ساتھیو، آپ کے ووٹ کی چوری کا مطلب ہے آپ کے راشن کی چوری، آپ کے پنشن کی چوری، سرکاری رہائش سے متعلق سہولت کی چوری، منریگا کے پیسے کی چوری۔‘‘ ساتھ ہی کہا کہ ’’گاندھی، نہرو اور ڈاکٹر امبیڈکر نے سب کو ووٹ کا یہ حق تب دلایا تھا جب دنیا میں تمام رخنات تھے۔ اس لیے غریب، دلت، پسماندہ ووٹ نہیں دے سکتے تھے۔ پراپرٹی اور پڑھے لکھے ہونے کی شرطیں تھیں۔ ووٹ کا یہ حق غریبوں، ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور خواتین کا بنیادی حق ہے، اسے بچائیے۔ آئین اور جمہوریت کو مضبوط کیجیے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔