آئین کے مطابق تو راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ صدر جمہوریہ کو لینا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا!

لوک سبھا کے سابق جنرل سکریٹری پی ڈی ٹی آچاریہ کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ آئین کے شق 103 کے مطابق صدر جمہوریہ کے ذریعہ طے کیا جانا چاہیے تھا۔

راہل گاندھی، تصویر ٹوئٹر @INCIndia
راہل گاندھی، تصویر ٹوئٹر @INCIndia
user

ایشلن میتھیو

گجرات کے سورت میں چیف جیوڈیشیل مجسٹریٹ ایچ ایچ ورما نے کانگریس رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کو ہتک عزتی کے ایک معاملے میں تعزیرات ہند کی دفعہ 499 اور 500 کے تحت قصوروار قرار دیتے ہوئے 23 مارچ کو دو سال کی سزا سنائی۔ ساتھ ہی عدالت نے سزا کو 30 دن کے لیے ملتوی کرتے ہوئے انھیں اوپری عدالت میں اپیل کے لیے ضمانت بھی دی۔ انھیں 10 ہزار روپے کے مچلکے پر ضمانت دی گئی، لیکن انھیں قصوروار قرار دیے جانے کو برقرار رکھا۔

عدالت کے اس فیصلے پر لوک سبھا سکریٹریٹ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کر راہل گاندھی کی رکنیت کو منسوخ کر دیا، یا ایک طرح سے کہیں کہ ان کی پارلیمانی رکنیت ختم کر دی۔ اس نوٹیفکیشن کی کاپی انتخابی کمیشن اور دیگر ضروری محکموں کو بھیج دی گئی۔ اس نوٹیفکیشن کے بعد راہل گاندھی کا انتخابی حلقہ کیرالہ کی وائناڈ سیٹ خالی ہو گئی ہے اور انتخابی کمیشن اب اپنی دانشمندی کے مطابق وہاں ضمنی انتخاب کا اعلان کر سکتا ہے۔


کانگریس نے اس معاملے میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو سے ملنے کا وقت مانگا تاکہ وہ اپنے معاملے کو ان کے سامنے پیش کر سکے۔ آئین کے شق 103 کے مطابق اگر یہ سوال آتا ہے کہ کسی موجودہ رکن پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کی جائے یا نہیں، تو اس سوال کو صدر جمہوریہ کے سامنے رکھا جاتا ہے اور صدر جمہوریہ کا فیصلہ آخری فیصلہ مانا جاتا ہے۔

اس معاملے پر لوک سبھا کے سابق جنرل سکریٹری پی ڈی ٹی آچاریہ نے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے شق 103 کے تحت راہل گاندھی کی پارلیمانی رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ صدر جمہوریہ کے ذریعہ ہی لیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ آئین کے شق 102 کہتا ہے کہ کسی رکن پارلیمنٹ کی رکنیت تب ختم کی جا سکتی ہے جب اسے کسی بھی جرم میں قصوروار پایا گیا ہو اور اسے دو سال یا اس سے زیادہ مدت کی سزا سنائی گئی ہو۔


واضح رہے کہ 2009 میں سپریم کورٹ نے کنزیومر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سوسائٹی بنام حکومت ہند کے کیس میں کہا تھا کہ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی رکنیت تبھی ختم کی جا سکتی ہے جب صدر جمہوریہ نے اپنے فیصلہ میں ایسا کہا ہو۔ قابل ذکر ہے کہ عوامی نمائندہ قانون 1951 کی دفعہ 8(3) کے تحت اگر کسی شخص کو جرم کے لیے قصوروار پایا گیا ہو اور اسے کم از کم دو سال کی سزا سنائی گئی ہو تو وہ قصوروار ٹھہرائے جانے کی تاریخ سے ہی پارلیمنٹ کا رکن نہیں رہ جاتا ہے اور سزا پوری ہونے کے بعد اگلے 6 سال تک انتخاب بھی نہیں لڑ سکتا ہے۔

اس سے پہلے اسی قانون کی دفعہ 8(4) میں التزام تھا کہ کسی بھی جرم میں قصوروار ٹھہرائے جانے اور سزا سنائے جانے کے تین ماہ بعد تک رکن پارلیمنٹ یا رکن اسمبلی کی رکنیت بنی رہ سکتی ہے۔ لیکن اس تین ماہ کی مہلت کو 2013 میں للی تھامس بنام حکومت ہند معمالے میں خارج کر دی اگیا تھا۔ لیکن کچھ قانونی سوالات ہیں کہ کیا وہ شخص ایوان کا رکن رہ سکتا ہے یا نہیں!


راہل گاندھی کے لیے اب آگے کیا راستہ ہے؟

راہل گاندھی کے سامنے اب قانونی راستہ یہ ہے کہ وہ اوپری عدالت میں اپیل کریں اور انھیں قصوروار ٹھہرائے جانے کے حکم پر اسٹے آرڈر حاصل کریں۔ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے کہتے ہیں کہ ’’انھیں اپیلی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوگا اور جس ریاست میں انھیں سزا سنائی گئی ہے اسی ریاست میں موجود قانونی نظام کے مطابق یا تو سیشن کورٹ یا ہائی کورٹ میں اپیل کرنی ہوگی۔‘‘ مثلاً دہلی میں اگر یہ معاملہ ہوتا تو انھیں ضلع جج کی عدالت میں جا کر جیوڈیشیل مجسٹریٹ کے فیصلے پر اسٹے حاصل کرنا ہوتا۔ ہیگڑے بتاتے ہیں کہ جو عدالت قصوروار ٹھہرا کر سزا سنائے اور وہیں سزا پر اسٹے بھی لگائے، ایسا بہت کم معاملہ ہوگا۔ ہیگڑے یہ بھی کہتے ہیں کہ راہل گاندھی کو حکم پر اپیل کرنی ہوگی اور پہلا قدم یہی ہوگا کہ اپیل کو عدالت قبول کر لے، کیونکہ عام طور پر معاملے سماعت کی سماعت بعد میں ہوتی ہے۔ انھوں نے نشان زد کیا کہ ’’عام طور پر ایسے معاملوں میں سزا پر عبوری اسٹے دے دیا جاتا ہے۔ انھیں عبوری اسٹے ملے گا یا نہیں، یہی اصل سوال ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اگر سیشن کورٹ اسٹے نہیں دیتا ہے تو پھر انھیں گجرات ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوگا۔

اس دوران کانگریس لیڈران نے کہا کہ وہ اس معاملے میں ’قانونی اور سیاسی‘ دونوں لڑائی لڑیں گے۔ امکان ہے کہ راہل گاندھی کے معاملے میں بدھ کو اپیلی عدالت میں عرضی داخل کی جائے۔ ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں باقی اپیل کے ساتھ اس بات کو بھی چیلنج پیش کیا جائے گا کہ راہل گاندھی کے کیس میں سی آر پی سی کی دفعہ 202 پر بھی عمل نہیں کیا گیا ہے۔ سی آر پی سی کی دفعہ 202 کے تحت کوئی مجسٹریٹ معاملے کی سماعت اس بنیاد پر تب تک ملتوی کر سکتا ہے اگر ملزم اس عدالت کے عدالتی اختیارات کے باہر کا رہنے والا ہے اور مجسٹریٹ نے الزامات کی جانچ خود کر کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔


آخر کس ہتک عزتی کیس میں راہل گاندھی کو ملی سزا؟

گزشتہ لوک سبھا انتخاب یعنی 2019 میں انتخابی تشہیر کے دوران راہل گاندھی نے کرناٹک کے کولار میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آخر سبھی چوروں کے سرنیم مودی ہی کیوں ہوتے ہیں...۔‘‘ انھوں نے اس معاملے میں ہیرا کاروباری نیرو مودی اور للت مودی کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی کا تذکرہ کیا تھا۔

راہل گاندھی کی اس تقریر کے بعد گجرات کے بی جے پی رکن اسمبلی پرونیش مودی نے اپریل 2019 میں راہل گاندھی کے خلاف مجرمانہ ہتک عزتی کا معاملہ درج کرایا اور کہا تھا کہ انھوں نے پورے مودی سماج کی بے عزتی کی ہے۔ معاملہ درج ہونے کے بعد راہل گاندھی اس کیس کو لے کر جون 2021 میں اس وقت کے جیوڈیشیل مجسٹریٹ اے این دَوے کی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ لیکن کیس میں شکایت دہندہ یعنی بی جے پی رکن اسمبلی پرونیش مودی نے مارچ 2022 میں ایک عرضی دے کر اس معاملے کی سماعت پر روک لگانے کی اپیل کی تھی، جس کے بعد کیس کی سماعت پر کورٹ نے اسٹے لگا دیا تھا۔ رواں سال فروری میں، یعنی گزشتہ ماہ اچانک شکایت دہندہ نے عدالت کو عرضی دے کر معاملے کی سماعت پر لگے اسٹے کو ہٹانے کا مطالبہ کیا اور بنیاد پیش کیا کہ کیس سے متعلق اب ان کے پاس مناسب ثبوت آ گئے ہیں۔ اس کے بعد 27 فروری کو مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تھی۔ جس کے بعد جسٹس ایچ ایچ ورما نے راہل گاندھی کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے اس کیس میں جو سب سے زیادہ سزا ہو سکتی تھی، یعنی دو سال کی سزا کا اعلان کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔