’ایک گھر میں 4271 ووٹرس، یہ گھر ہے یا ایک پورا انتخابی حلقہ؟‘ ووٹ چوری کے نئے ثبوت پر کانگریس کا سوال

کانگریس کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اور نریندر مودی نے ملک بھر میں ’ووٹ چوری‘ کا کارنامہ کیا ہے، جو لگاگار سامنے آ رہا ہے۔ آج پورا ملک کہہ رہا ہے ’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘۔

<div class="paragraphs"><p>گرافکس ’ایکس‘، @INCIndia</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ایک طرف کانگریس نے ’ووٹ چوری‘ کے خلاف زوردار مہم شروع کر رکھی ہے، دوسری طرف روزانہ کسی نہ کسی ریاست سے ’ووٹ چوری‘ کا کوئی نہ کوئی معاملہ سامنے آ ہی جاتا ہے۔ تازہ معاملہ اتر پردیش کے مہوبا کا ہے جہاں مبینہ ’ووٹ چوری‘ کا ایسا ثبوت ظاہر ہوا ہے، جس نے سبھی کو حیران کر دیا ہے۔ مہوبا کے مکان نمبر 803 کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہاں 4271 ووٹر رجسٹر ہیں۔ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد کانگریس نے ایک بار پھر پی ایم مودی اور الیکشن کمیشن کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ کانگریس نے تو پہلی فرصت میں یہ سوال پیش کر دیا ہے کہ ’یہ گھر ہے یا ایک پورا انتخابی حلقہ؟‘

معاملہ صرف ایک گھر کا نہیں ہے، بلکہ کئی ایسے گھر ہیں جہاں بڑی تعداد میں ووٹرس رجسٹر ہیں، لیکن حقیقت میں وہاں کچھ ہی لوگ مقیم ہیں۔ 3 مکانات کی مثال تو کانگریس نے پیش بھی کر دی ہے۔ ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کانگریس نے لکھا ہے کہ ’’یوپی کے مہوبا میں ووٹ چوری کا کھیل۔ مکان نمبر 803 میں 4271 ووٹرس، مکان نمبر 996 میں 243 ووٹرس، مکان نمبر 997 میں 185 ووٹرس۔‘‘ اس کے ساتھ ہی کانگریس نے لکھا ہے کہ ’’الیکشن کمیشن اور نریندر مودی نے ملک بھر میں ’ووٹ چوری‘ کا کارنامہ انجام دیا ہے، جو لگاتار سامنے آ رہا ہے۔ آج پورا ملک کہہ رہا ہے ووٹ چور، گدی چھوڑ۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ مہوبا میں ووٹر لسٹ کی اس گڑبڑی کا پتہ اے آئی، یعنی مصنوعی ذہانت سے پتہ چلا ہے۔ ایک ہندی نیوز پورٹل پر شائع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہوبا میں 4 کمروں والے مکان میں 4271 ووٹرس ہیں، جس کا انکشاف اے آئی سے کرائے جا رہے سروے کے دوران ہوا۔ اِس وقت یوپی ریاستی الیکشن کمیشن پنچایت انتخاب کے لیے ووٹر لسٹ کی نظرثانی کا پروگرام چلا رہا ہے۔ یہ پروگرام 20 ستمبر تک چلے گا۔ اس کے تحت الیکشن کمیشن نے اے آئی کے ذریعہ بوگس ووٹوں کی شناخت شروع کی ہے۔ اے آئی سے پہچانے گئے بوگس ووٹوں سے متعلق ایریا کے بی ایل او سے فیزیکل سرٹیفکیشن کرایا جا رہا ہے۔ اس میں مہوبا کے جیت پور گاؤں میں مکان نمبر 803 میں 4271 ووٹرس کے نام پہچانے گئے ہیں۔

جب مکان نمبر 803 کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی گئی، تو پتہ چلا ہے کہ یہاں مجموعی طور پر 10 لوگ ہی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اس گاؤں میں مجموعی ووٹرس کی تعداد 16 ہزار ہے۔ جب گڑبڑی سامنے آئی تو جانچ کے لیے الیکشن کمیشن کے افسران نے بی ایل او کو موقع پر بھیجا۔ اس مکان کی مالکن مجو ہے، جس نے بتایا کہ ہزاروں کی تعداد میں ووٹرس اس کے گھر پر رجسٹر کیسے ہوئے، اس بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔ بتایا جاتا ہے کہ مکان نمبر 803 کی مالکن اُجیا کی موت 10 سال قبل ہو چکی ہے، جبکہ ووٹر لسٹ میں اُجیا کا بھی نام شامل ہے۔ اُجیا کی بیٹی مجو اب اس مکان کی مالکن ہے۔ اسی گھر میں رہنے والے رشید کہتے ہیں کہ ’’جب ہمیں پتہ چلا کہ اس مکان میں ہزاروں ووٹرس رجسٹر ہیں، تو ہم بھی حیران و پریشان ہوئے۔ اس معاملے کی غیر جانبدارانہ جانچ ہونی چاہیے۔ اتنے سارے لوگ کیسے ایک ہی مکان نمبر پر درج ہو گئے؟ ووٹرس کی اتنی تعداد تو پورے وارڈ کی نہیں ہے۔‘‘


ایسا ہی ایک معاملہ اسی تحصیل کے پنواری گرام پنچایت کے وارڈ نمبر 13 میں بھی سامنے آیا ہے۔ یہاں مکان نمبر 996 میں 185 اور مکان نمبر 997 میں 243 ووٹرس درج ملے۔ حالانکہ ان گھروں میں 2 سے 6 ووٹرس ہی رہتے ہیں۔ مکان مالک خود ووٹر لسٹ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ مکان نمبر 997 کے مالک اروند اہیروار کو جب اس بارے میں پتہ چلا تو اس نے کہا کہ ’’ہم بی ایل او صاحب سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ایک مکان میں اتنے آدمی کہاں سے آ گئے؟‘‘ اروند نے بتایا کہ اس ووٹر لسٹ میں سبھی ذات کے لوگوں کا نام مزید حیران کرنے والا ہے۔ ان میں مسلم بھی ہیں اور پنڈت بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر ہم لوگ خاندان کے اب و جد کو بھی جوڑ لیں، تو بھی یہ تعداد پوری نہیں ہوگی۔ اس طرح تو کوئی بھی آ کر ہمارے مکان پر دعویٰ بھی کر سکتا ہے۔‘‘ اس پورے معاملے میں پنواڑی گاؤں کے بی ایل او جئے پرکاش ورما کہتے ہیں کہ یہ خامیاں ووٹر لسٹ کی نظرثانی کے دوران سامنے آئی ہیں۔ انھیں ٹھیک کرانے کے لیے رپورٹ اعلیٰ افسران کو بھیج دی گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔