’ٹھاکرے حکومت گرانے کے لیے دو سال میں 150-100 میٹنگیں ہوئیں‘، مہاراشٹر کے وزیر کا حیرت انگیز انکشاف

تاناجی ساونت نے کہا کہ ’’دیویندر فڈنویس کی ہدایت پر شیوسینا اور بی جے پی نے دھاراشیو ضلع پریشد کا انتخاب ساتھ لڑا اور یہیں سے اتحاد کی شروعات ہوئی۔‘‘

ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے، تصویر آئی اے این ایس
ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

مہاراشٹر حکومت میں وزیر تاناجی ساونت نے ایک ایسا بیان دیا ہے جس نے سیاسی ماحول کو گرم کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک تقریر کے دوران دعویٰ کیا ہے کہ دیویندر فڈنویس کی ہدایت پر مہاراشٹر میں ٹھاکرے حکومت گرائی گئی۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہماری (شندے گروپ کے لیڈروں کی) اور دیویندر فڈنویس جی کی میٹنگیں ہوئیں۔ میں اور موجودہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے دو سال میں 100 سے 150 میٹنگیں کیں۔‘‘

یہ بیان تاناجی ساونت نے دھاراشیو میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’دیویندر فڈنویس کی ہدایت پر شیوسینا اور بی جے پی نے دھاراشیو ضلع پریشد کا انتخاب ساتھ لڑا اور یہیں سے اتحاد کی شروعات ہوئی۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’میں نے ہی پہلے جا کر ماتوشری میں بغاوت کا بگل بجایا تھا۔‘‘ ساونت کا کہنا ہے کہ کانگریس اور این سی پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا ریاست کی 12 کروڑ اُن عوام کی بے عزتی تھی جنھوں نے شیوسینا-بی جے پی اتحاد کو ووٹ دیا تھا۔


تاناجی ساونت کا بیان سامنے آنے کے بعد اپوزیشن پارٹی شیوسینا (ادھو ٹھاکرے گروپ) کے لیڈر اور مہاراشٹر قانون ساز کونسل میں حزب مخالف لیڈر امباداس دانوے نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تاناجی کے بیان سے صاف ہے کہ بغاوت کے بیج شندے گروپ کے اراکین اسمبلی کے دماغ میں بہت پہلے سے تھے۔ یعنی باغی اراکین اسمبلی نے جو ادھو ٹھاکرے پر یہ الزام لگایا کہ وہ وزراء اور اراکین اسمبلی سے ملاقات نہیں کرتے تھے اور انھیں فنڈ نہیں دیا جاتا تھا، یہ سب کھوکھلی باتیں اور بہابہ بازیاں تھیں۔

واضح رہے کہ جون 2022 میں ایکناتھ شندے کی قیادت میں شیوسینا اراکین اسمبلی نے بغاوت کر دی تھی، جس کے سبب ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا-این سی پی-کانگریس اتحاد والی حکومت گر گئی تھی۔ بعد ازاں ایکناتھ شندے کی قیادت میں شیوسینا اور بی جے پی کے اتحاد میں نئی حکومت بنی۔ اس حکومت میں دیویندر فڈنویس نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔ 

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔