مدھیہ پردیش میں جبری مذہب تبدیل کرانے پر 10 سال قید، 50 ہزار کا جرمانہ

نروتم مشرا نے کہا کہ جب یہ بل قانون کی شکل اختیار کرے گا تو پھر 1968 کا فریڈم آف ریلیجنس ایکٹ ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کو پیر سے شروع ہونے والے اسمبلی کے سرمائی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔

تصویر بشکریہ ٹوئٹر
تصویر بشکریہ ٹوئٹر
user

یو این آئی

بھوپال: مدھیہ پردیش قانون ساز اسمبلی کے سرمائی اجلاس کے آغاز سے صرف دو دن پہلے آج یہاں ریاستی کابینہ نے تبدیلی مذہب کو روکنے سے متعلق مدھیہ پردیش مذہبی آزادی بل 2020 کو منظوری دے دی۔ ریاستی وزیر داخلہ نروتم مشرا نے وزرا کی میٹنگ کے بعد میڈیا کو بتایا کہ اس بل میں مذہب تبدیل کرنے کو روکنے کے لئے سخت التزام کیے گئے ہیں۔ اس میں سزا کے بہت سخت التزامات ہیں اور بہت سارے التزامات ملک میں فی الحال صرف اسی ریاست میں کیے گئے ہیں۔

نروتم مشرا نے کہا کہ جب یہ بل قانون کی شکل اختیار کرے گا تو پھر 1968 کا فریڈم آف ریلیجنس ایکٹ ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کو پیر سے شروع ہونے والے اسمبلی کے سرمائی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ جعلسازی سے یا دیگر طریقے سے اس کا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش نہیں کرسکے گا۔ کوئی بھی شخص مذہب تبدیل کرنے کی تحریک یا سازش نہیں کرسکے گا۔


نروتم مشرا نے کہا کہ اس سے متعلق ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی شخص کو ایک سال سے لے کر پانچ سال تک کی قید اور 25 ہزارروپے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نابالغ، خواتین، درج فہرست ذات و قبائل کے معاملے میں دو سے دس سال تک قید اور کم سے کم 50 ہزار روپے جرمانے کا بھی التزام ہے۔

انہوں نے کہا کہ آزادی مذہب بل کی خلاف ورزی کرنے پر تین سال سے دس سال تک کی قید اور 50 ہزار روپے جرمانے اور مذہبی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی پر اجتماعی طور پر تبدیل مذہب کرنے کی کوشش کرنے پر (دو یا زیادہ افراد کے) 5 سے 10 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ اور ایک لاکھ روپے جرمانہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔


نروتم مشرا نے کہا کہ نئے قانون میں مذہب کی تبدیلی (لوجہاد) کے ارادے سے، شادی کو کالعدم قرار دیا گیا ہے اور اس میں عورت اور اس کے بچوں کی دیکھ بھال کا بھی حق رکھنے کا انتظام ہے۔ ایسی شادیوں سے پیدا ہونے والے بچے والدین کی جائداد کے وارث ہوں گے۔ مجوزہ فریڈم آف ریلیجنس ایکٹ کو کچھ دفعات کے ساتھ سخت بنا دیا گیا ہے جو ملک کی کسی بھی ریاست میں مذہب کی تبدیلی کے لئے شادیوں کو روکنے کے لئے اب تک نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آزادی مذہب بل کی خلاف ورزی کرنے والے ادارے اور تنظیم کو بھی مجرم کی طرح ہی سزا ملے گی۔ تبدیلی مذہب نہیں کیا گیا ہے، اسے خود ملزم کو ہی ثابت کرنا ہوگا۔ جرم قابل شناخت اور ناقابل ضمانت ہونے کی وجہ سے ڈپٹی پولیس انسپکٹر کے عہدے سے نیچے کا کوئی بھی افسر اس کی تفتیش نہیں کر سکے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔