جاسوسی دنیا میں گم رہنے والے ابن صفی کی شاعری بھی بے مثال (یومِ پیدائش پر خصوصی پیشکش)

ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے اردو ادب کو لازوال جاسوسی ناول ہی نہیں دیے، بلکہ اعلیٰ معیاری غزلوں کی سوغات بھی دی۔

<div class="paragraphs"><p>ابن صفی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

ابن صفی، تصویر سوشل میڈیا

user

تنویر

ابن صفی کو کون نہیں جانتا! اردو میں جاسوسی ناول کے آسمان پر وہ ایسے درخشندہ ستارہ کی طرح ہیں جس کی روشنی رہتی دنیا تک مدھم نہیں ہونے والی۔ ابن صفی نے جاسوسی کرداروں کی ایک بے مثال دنیا قائم کی ہے اور ان کرداروں کے درمیان ایسا پلاٹ تیار کیا جو آج بھی کوئی پڑھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ کیا کوئی انسانی دماغ اس طرح بھی سوچ سکتا ہے۔ اس عظیم شخصیت کا آج یومِ پیدائش ہے، اور یومِ وفات بھی۔ جی ہاں، ابن صفی کی پیدائش 26 جولائی 1928 کو الٰہ آباد (پریاگ راج) کے نارا شہر میں ہوئی تھی، اور انتقال 28 جولائی 1980 کو پاکستان میں ہوا جہاں وہ کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں دفن کیے گئے۔

ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے اردو ادب کو لازوال جاسوسی ناول ہی نہیں دیے، بلکہ اعلیٰ معیاری غزلوں کی سوغات بھی دی۔ کچھ لوگوں کو اس بات کا شاید علم نہ ہو، لیکن انھوں نے ’اسرار ناروی‘ کے نام سے غزلیں اور نظمیں لکھی ہیں۔ اردو ادب کی اس عظیم ہستی کے یومِ پیدائش اور یومِ وفات کے موقع پر ’قومی آواز‘ کے قارئین کے لیے پیش ہے ان کی تین اہم غزلیں:


(1)

کچھ تو تعلق کچھ تو لگاؤ

میرے دشمن ہی کہلاؤ

دل سا کھلونا ہاتھ آیا ہے

کھیلو توڑو جی بہلاؤ

کل اغیار میں بیٹھے تھے تم

ہاں ہاں کوئی بات بناؤ

کون ہے ہم سا چاہنے والا

اتنا بھی اب دل نہ دکھاؤ

حسن تھا جب مستور حیا میں

عشق تھا خون دل کا رچاؤ

حسن بنا جب بہتی گنگا

عشق ہوا کاغذ کی ناؤ

شب بھر کتنی راتیں گزریں

حضرت دل اب ہوش میں آؤ

(2)

یوں ہی وابستگی نہیں ہوتی

دور سے دوستی نہیں ہوتی

جب دلوں میں غبار ہوتا ہے

ڈھنگ سے بات بھی نہیں ہوتی

چاند کا حسن بھی زمین سے ہے

چاند پر چاندنی نہیں ہوتی

جو نہ گزرے پری وشوں میں کبھی

کام کی زندگی نہیں ہوتی

دن کے بھولے کو رات ڈستی ہے

شام کو واپسی نہیں ہوتی

آدمی کیوں ہے وحشتوں کا شکار

کیوں جنوں میں کمی نہیں ہوتی

اک مرض کے ہزار ہیں نباض

پھر بھی تشخیص ہی نہیں ہوتی


(3)

آج کی رات کٹے گی کیوں کر ساز نہ جام نہ تو مہمان

صبح تلک کیا جانئے کیا ہو آنکھ لگے یا جائے جان

پچھلی رات کا سناٹا کہتا ہے اب کیا آئیں گے

عقل یہ کہتی ہے سو جاؤ دل کہتا ہے ایک نہ مان

ملک طرب کے رہنے والو یہ کیسی مجبوری ہے

ہونٹوں کی بستی میں چراغاں دل کے نگر اتنے سنسان

ان کی بانہوں کے حلقے میں عشق بنا ہے پیر طریق

اب ایسے میں بتاؤ یارو کس جا کفر کدھر ایمان

ہم نہ کہیں گے آپ کے آگے رو رو دیدے کھوئے ہیں

آپ نے بپتا سن لی ہماری بڑا کرم لاکھوں احسان

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔