مرزا غالب کے یومِ وفات پر خصوصی پیشکش: کس اردو اخبار میں سب سے پہلے شائع ہوئی مرزا غالب کے انتقال کی خبر؟
دہلی سے شائع ہونے والے ’اکمل الاخبار‘ میں مرزا غالب کے انتقال کی خبر 17 فروری 1869 کو، یعنی اس عظیم شاعر کی وفات کے 2 روز بعد شائع ہوئی، اور پھر پورے ملک میں پھیل گئی

مرزا غالب / Getty Images
آج مرزا اسداللہ خاں غالب کا یوم وفات ہے۔ ان کی پیدائش 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں ہوئی، اور وفات 15 فروری 1869 کو دہلی واقع گلی قاسم جان میں ہوئی۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا ہر کوئی دلدادہ نظر آتا ہے، خود غالب نے بھی شعر کہنے کے اپنے انداز کو دیگر شعرا سے بہت مختلف بتایا ہے۔ اس کا ثبوت ان کا یہ شعر ہے:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
بہرحال، کیا آپ کو معلوم ہے کہ غالب کے انتقال کی خبر سب سے پہلے کس اخبار میں شائع ہوئی؟ اس اخبار کا نام ہے ’اکمل الاخبار‘۔ دہلی سے شائع ہونے والے اس اخبار میں مرزا غالب کے انتقال کی خبر 17 فروری 1869 کو، یعنی اس عظیم شاعر کی وفات کے 2 روز بعد شائع ہوئی، اور پھر پورے ملک میں پھیل گئی۔ ’اکمل الاخبار‘ میں شائع اس خبر کا مواد لاہور میں مقیم ادب نواز ڈاکٹر مسعود احمد نے ’قومی آواز‘ کے ساتھ شیئر کیا۔ اس خبر کو من و عن یہاں شائع کیا جا رہا ہے تاکہ قارئین کو پتہ چل سکے کہ غالب کی وفات کے وقت دنیائے ادب میں ان کا کیا مقام تھا۔ ساتھ ہی اُس وقت اردو اخبارات کی زبان سے متعلق اندازہ بھی آپ کو بخوبی ہو سکے گا۔
غالب کی وفات
انا للہ وانا الیہ راجعون
فغاں اس زمانہ غدارے، آہ روزگار ناہنجارے۔ ہر روز نیا رنگ دکھاتا ہے، ہردم دامِ غم و الم میں پھنساتا ہے۔ اس محیط آفت کی موج بلاخیز ہے۔ اس وادیٔ ہولناک کی ہوا فتنہ انگیز ہے۔ اس کا آب سراب، اس کی راحت جز و جراحت، اس کی رافت سرمایۂ صداقت، اس کی شکر زہر آلود، اس کی امید آرزوئے فرسودہ۔ ہر روز محل حیات کو صرصر ممات سے گراتا ہے۔ ہردم محفل سرور سے صدائے ماتم اٹھاتا ہے… پھول اُدھر کھلا اِدھر گر پڑا۔ لالہ لباس رنگین میں یہی داغ دل پر رکھتا ہے۔ غنچہ خون جگر سے پرورش پاتا ہے۔ بلبل نوحہ گر چمن ہے اور مرغ سحر خواں اسیر محن…
کیا عجب گو آسماں در پے آزار ہے۔ بھلا اس سے کیا توقع آسودگی جس کا خود گردش پر مدار ہے۔ دیکھو بیٹھے بٹھائے کیا آفت اٹھائی ہے۔ کس منتخب روزگار کی جدائی دکھائی ہے۔ نخل بردمند سے معانی کو باد خزاں سے گرایا، مہر سپہر سخندانی کو خاک میں ملایا، جو خسرو کے بعد ملک سخن کا خسرو مالک رقاب تھا۔ اس کا نامۂ عمر طے ہوا جو میدان سخنوری کا شہسوار مالک رقاب تھا، اس کا رخش زندگی پے ہوا۔ ان حضرت کی کن کن خوبیوں کا ذکر کیا جائے۔ دریا کوزے میں کیوں کر سمائے، حسن خلق میں اخلاق کی کتاب، عمیم الاشفاقی میں لاجواب، خوبیٔ تحریر میں بے نظیر، صافی ضمیر، جادو تقریر، فارسی زبان میں لاثانی، اردوئے معلیٰ کے بانی، افسوس جس کا شہباز خیال طائر صدرہ شکار ہو، وہ پنجۂ گرگ اجل میں گرفتار ہو… اس غم سے سب کی حالت تباہ ہے، روز یہی اس مصیبت میں سیاہ ہے۔ اب توضیح اجمال و تفصیل مقال ہے۔ واضح ہو کہ جناب مرحوم دو تین مہینے سے صاحب فراش رہے، ضعف و نقاہت کے صدمے سہے۔ آٹھ دن انتقال سے پہے کھانا پینا ترک فرمایا، اس دنیائے فانی سے بالکل دل اٹھایا، تا آنکہ 15 فروری 1869 روز دو شنبہ کو دوپہر ڈھلے اس خورشید اوجِ فضل و کمال کو زوال ہوا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔