شائستہ فاخری۔ فکشن نگاری میں نسائی احتجاج کی آواز... جمال عباس فہمی

شائستہ شاعرہ، افسانہ نگار، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ انہوں نے بہت سی کتابوں کا ہندی سے اردو میں اور اردو سے ہندی میں ترجمہ کیا ہے۔ شائستہ ہندی اور اردو میں یکساں مہارت اور چابکدستی کے ساتھ لکھتی ہیں۔

شائستہ فاخری
شائستہ فاخری
user

جمال عباس فہمی

’’جس وقت قلم میرے ہاتھ میں ہوتا ہے اس وقت میں صرف اور صرف ایک عورت ہوتی ہوں۔ ایسی عورت جو اپنے آپ کو چھپانا یا پوشیدہ رکھنا نہیں چاہتی بلکہ اپنا گریبان پھاڑ کر اپنے اندر کے سچ کو باہر لانا چاہتی ہے اور سامنے والے کا گریبان چاک کرکے اسے اس کا سچ دکھانا چاہتی ہے۔ ایک تخلیق کار خاتون اگر مصلحت اور پابندیوں میں جکڑ کر قلم اٹھاتی ہے تو میرا خیال ہے کہ وہ اپنی تخلیق کے ساتھ پورا انصاف نہیں کرسکتی‘‘۔ یہ تعارف کسی قلمکار کا کسی اور نے نہیں کرایا ہے بلکہ خود قلمکار نے اپنا مطمع نظر پیش کیا ہے اور وہ قلمکار ہیں اردو فکشن نگاری میں خواتین کے حق میں آواز اٹھانے کے حوالے سے منفرد پہچان رکھنے والی شائستہ فاخری۔

شائستہ فاخری کا اصل نام شائستہ ناز ہے۔ شائستہ کی پیدایش سترہ نومبر کو اتر پردیش کے سلطان پور میں ہوئی تھی۔ سنسکرت میں ایم اے پی ایچ ڈی شائستہ فاخری آل انڈیا ریڈیو الہ آباد میں سینیر اناؤنسر ہیں۔ ان کا تعلق اتر پردیش کے معروف صوفی خانوادے سے ہے۔ شائستہ ناز کے دادا حاجی محمد شاہد میاں فاخری الہ آباد کی خانقاہ دائرہ شاہ اجمل کے سجادہ نشیں تھے۔ حاجی محمد شاہد میاں فاخری کی چار اولادوں میں شائستہ کے والد سید محمد زاہد فاخری دوسرے نمبر پر ہیں۔ بڑے فرزند کے پاکستان ہجرت کر جانے کے بعد گدی نشینی شائستہ کے والد کے حصے میں آنی تھی لیکن انہوں نے سرکاری ملازمت کی وجہ سے سجادہ نشین بننا قبول نہیں کیا اور ان کے چچا سید ناصر فاخری خانقاہ کے سجادہ نشیں بنے۔


شائستہ فاخری نے خانقاہی ماحول میں آنکھیں کھولیں۔ جہاں دینی تہذیب و تمدن کا بول بالا تھا۔ خواتین کی آزادی فکر کا تصور نہیں تھا۔ خواتین کا گھر کی چہار دیواری میں رہنا، شرم و حیا کی دیوی بن کر رہنا زندگی کا لازمی جز تھا۔ مظلوم اور ستم رسیدہ خواتین کے تئیں شائستہ کے اندر جذبہ محبت اور حمایت بچپن سے ہی پیدا ہونے لگا تھا۔ متعدد خواتین اپنی مشکلات اور دکھ درد لیکر خانقاہ آتی تھیں۔ شائستہ آنے والی خواتین کے درمیان بیٹھ کر ان کی باتیں سنتی تھیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ شائستہ کے دل میں خواتین کی ہمدردی کے جذبات قوی سے قوی تر ہوتے چلے گئے۔ بچپن میں خاموش طبع اور اپنے آپ میں گم اور خیالات اور فکر میں کھوئی رہنے والی بچی دیکھتے دیکھتے اپنے خانوادے کے ماحول کی باغی ہو گئی۔ ساتویں کلاس میں تھی تو ہندی میں ایک کہانی ایسی لکھی جس کی خانقاہی ماحول کی پروردہ لڑکی سے توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔

شائستہ کی رومانی نوعیت کی پہلی کہانی کا عنوان 'آلنگن' تھا۔ جس کا مطلب ہے گلے لگانا یا لپٹانا۔ کہانی پر خاندان میں کافی لے دے مچی۔ مزید ہنگامہ آرائی سے بچنے کا طریقہ شائستہ نے یہ نکالا کہ انہوں نے خواتین کی مشکلات، ان کے درد اور ان کے اوپر ہونے والے مظالم کو موضوع سخن بنا لیا۔ روایت شکنی اور بغاوت اب ان کے مزاج کا حصہ بن چکی تھی۔ انہوں نے سنسکرت میں ایم اے کیا۔ شائستہ ناز بچپن سے ہی شاعری بھی کرنے لگیں تھیں۔ وہ اپنے احساسات کو نظم کرکے اس ڈائری میں لکھتی تھیں جو تکیہ کے نیچے چھپا کر رکھی جاتی تھی۔

ان کی ابتدائی شاعری کچھ اس طرح کی تھی۔

کھوجوں تجھ کو یونہی کب تک

آشاؤں کی چھاؤں میں

تیری یادوں کے کھنڈر میں

عمر بتاتی جاؤں میں


دکھ کی گھٹا جب چھاتی ہے

تمہاری یاد بہت آتی ہے

آنسو کے میگھ برستے ہیں

سوندھی دیہہ مہک مہک جاتی ہے

ساون کا مہینہ ہے

نتھ کنگن سب سونے ہیں

تم واسی ٹھہرے دور دھام کے

میں سیج ادھوری لئے کھڑی ہوں

شائستہ شاعرہ، افسانہ نگار، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ انہوں نے بہت سی کتابوں کا ہندی سے اردو میں اور اردو سے ہندی میں ترجمہ کیا ہے۔ شائستہ ہندی اور اردو میں یکساں مہارت اور چابکدستی کے ساتھ لکھتی ہیں۔ 'کوئی موسم رہے جاناں' ان کا شعری مجموعہ ہے۔ ان کے افسانوں کے پانچ مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں، جن میں تین ہندی میں 'سندھی بیلا'، دیہہ کا دکھ' اور 'ہرے زخم کی پہچان''


ہرے زخم کی پہچان اردو میں بھی شائع ہوا ہے۔ 'اداس لمحوں کی خود کلامی' اور 'وصف پیغمبری نہ مانگ'' اور 'خشک پتوں کی موسیقی'' اردو افسانوں کے مجموعات ہیں۔ 'وصف پیغمبری نہ مانگ' 14 افسانوں کا مجوعہ ہے۔ ہر افسانے کی کردار خاتون اپنی بقا کی لڑائی لڑتے ہوئے ترقی کی منزلیں طے کرتی ہے۔ حلالہ جیسے حساس ترین موضوع پر ان کا ناول 'نادیدہ بہاروں کے نشاں' ان کی بہت اہم تخلیق ہے جو ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔اس ناول میں کچھ مواقع پر ان کے کردار بہت بیباک نظر آتے ہیں۔

انہوں نے ہم جنسی افعال اور رشتوں پر بھی لکھا ہے۔ ناول' صدائے عندلیب بر شاخ شب' بھی ان کی اہم تخلیق ہے۔ شائستہ فاخری اپنے موضوعات اور کردار اپنے آس پاس کے ماحول سے ہی چنتی ہیں۔ ان کی افسانہ نگاری، موضوعات، اسلوب اور طرز نگارش پر محقق اور ناقد گوپی چند نارنگ کا یہ کہنا ہے کہ ''شائستہ فاخری نے زندگی کے سچ کو اتنے مختلف النوع جہتوں سے پیش کیا ہے کہ یقین نہیں ہوتا کہ ہمارے معاشرے میں سچ کتنی ملاوٹوں کے ساتھ بر سر پیکار ہے۔ موضوعات کے انتخاب میں شائستہ فاخری نے بڑی فراخ دلی کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے اسلوب میں ایسی پختگی اور اظہار بیان میں ایسی خوبیاں ہیں جو دوسرے چند معاصر لکھنے والیوں کو چھوڑ کر ان کو ممتاز کرتی ہیں''۔


جبکہ پروفیسر مغنی تبسم کے خیال میں ''شائستہ فاخری کے فن کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ کردار و واقعات کا اپنے آس پاس کے ماحول سے انتخاب کرتی ہیں۔ اور خاصی فنکارانہ نزاکت اور چابکدستی کے ساتھ اپنے کردار کی نفسیاتی، جنسی اور سماجی مسائل کا تجزیہ کرتی ہیں۔ وہ شکست و محرومی کو ہی اہمیت نہیں دیتی ہیں بلکہ ایسے حالات بھی پیش کرتی ہیں جو حسرت آمیز اور نشاط انگیز ہیں۔ یہ خصوصیت ان کی فنکارانہ عظمت اور انفرادیت کی ممتاز ہیں''۔

ناقدین کی رائے جاننے کے بعد ان کے اسلوب اور طرز بیان کا انداز ان کے افسانے 'کوکھ' کے اس اقتباس میں ملاحظہ کیجیے۔

''خاموشی کا سفر طے کرتے ہوئے چند لمحے اور گزر گئے۔ اس شخص کی لرزتی آنکھیں ایک بار پھر جل دھارا کی طرف اٹھیں۔ کینوس پر ابھری تصویر کی طرح منظر ساکت و جامد تھا۔ رنگ اور زاویے میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا تھا۔ جیسے پورے ماحول کو کسی آسیبی سائے نے گھیر لیا ہو۔ شانت ہوتی ہوئی جل دھارا کے بیچ وہ اسی طرح کھڑی تھی۔عقل حیران تھی۔ لوگ دیوی کی ناراضگی کا سبب نہیں جان پا رہے تھے۔ کس سے کیا بھول ہوئی کہ جو کبھی نہیں ہوا وہ بستی میں رونما ہوگیا۔ اچھی گدرائے جوبن والی پر شباب سڈول جسم والی عورت جل دھارا میں اترتے ہی اچانک کیسے پتھر کی ہوگئی۔ ناف کے نیچے سے اس کا دھڑ پتھر کا ہو چکا تھا جبکہ اوپری دھڑ اب بھی عام عورت کی طرح تھا۔ اور معصوم فرشتے جیسی بچی اس کی گود میں اسی طرح محفوظ تھی جیسے ماں کی کوکھ میں بچہ۔''


ترجمہ نگاری کے میدان میں بھی شائستہ فاخری نے سنگ میل تعمیر کیا ہے۔ انہو ں نے ملک کی مختلف زبانوں کی کہانیوں کو اردو کا قالب عطا کیا ہے۔ 'چوبیس زبانوں کی ہندستانی کہانیاں' نامی کتاب میں انہوں نے اسامی، بنگالی، اڑیا، نیپالی، سنتھالی، میتھلی، پنجابی، انگریزی، بوڈو، تیلگو، اردو، گجراتی، کشمیری، ملیالم، تامل وغیرہ زبانوں کی ایسی کہانیوں کو اردو میں ترجمہ کرکے کتابی شکل دی ہے جو ہندوستان کی تہذیب، تمدن، رسوم و رواج، رہن سہن اور یہاں کے ماحول کی صحیح معنیٰ میں عکاسی کرتی ہیں۔ شائستہ فاخری نے ہندی زبان کے فکشن نگار نرمل ورما کے ناول 'انتم ارنیے' کو اردو قالب میں 'آخری بیابان' کے عنوان سے ڈھالا ہے۔ ڈاکٹر شارب ردولوی کی کتاب، 'اسرار الحق مجاز' کا ہندی میں ترجمہ کیا ہے۔ شائستہ فاخری کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان کے افسانوی مجموعے اور ناول کی ابتدا عمومی طور سے نظم سے ہوتی ہے۔ شائستہ فاخری کے افسانوں کے مجموعے 'وصف پیغمبری نہ مانگ' پر حیدر آباد یونیورسٹی کی ایک ریسرچ اسکالر نے ایم فل کیا ہے۔ اسکالر شاہدہ نے شائستہ فاخری کے افسانوی مجموعے کا تنقیدی مطالعہ کے عنوان تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے۔ چودہ افسانوں کے اس مجموعے پر بہار اردو اکیڈمی اور اتر پردیش اردو اکیڈمی نے شائستہ کو انعامات سے نوازہ ہے۔

شائستہ فاخری کی تحریر کے مداحوں کے لئے صدمے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اب لکھنا ترک کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنے انداز سے اپنے لئے جینا چاہتی ہیں۔ 2016 کے بعد سے انہوں نے کچھ نہیں لکھا ہے۔ انہوں نے لکھنے کے ساتھ ساتھ ادب کا ذوق و شوق رکھنے والوں سے ملنا جلنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ شائستہ فاخری ایک بار پھر سے اپنے بچپن والی شائستہ ناز بن چکی ہیں جو اپنے آس پاس کے ماحول سے بے خبر اپنے آپ میں مگن رہتی تھی۔ سوچوں میں گم رہتی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔