مرزا اسداللہ خاں غالبؔ: محبت، فلسفہ اور انسانی شعور کی لازوال آواز
مرزا غالبؔ اردو کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری محبت، فلسفہ اور انسانی شعور کا حسین امتزاج ہے۔ ان کے اشعار آج بھی انسان، رشتوں اور زندگی کی گہری سچائیوں سے روشناس کراتے ہیں

یہ داستان اردو زبان کی اُس عظیم ترین اور ہمہ جہت شخصیت کی ہے جسے دنیا مرزا اسداللہ خاں غالبؔ کے نام سے جانتی ہے۔ کسی نے انہیں محبت کا شاعر کہا، کسی نے فلسفے کا علمبردار قرار دیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ غالبؔ ان تمام خانوں سے کہیں آگے تھے۔ وہ کسی ایک لقب یا تمغے میں بندھنے کے قائل نہ تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے اقبال، اپنی فکر اور اپنی بے مثال شاعری کو نکھارنے میں صرف کی۔ ان کی ہر غزل میں جذبوں کی نئی پرتیں کھلتی ہیں اور خونِ دل کی بے ترتیب مگر معنی خیز روانی سامع کے وجود میں سرایت کر جاتی ہے۔
آگرہ میں 27 دسمبر 1797 کو پیدا ہونے والے غالبؔ نے زندگی کے ہر پہلو کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ محبت، کشمکش، اظہار، جدائی اور زندگی کے گہرے فلسفے، سب کچھ ان کے یہاں لفظوں کی صورت میں سانس لیتا ہے۔ وہ اپنے عہد سے کہیں آگے سوچنے والے شاعر تھے۔ ان کی شاعری محض جذبات کی عکاس نہیں بلکہ انسانی شعور کی رہنمائی بھی کرتی ہے۔ نصیحت ان کے ہاں واعظانہ نہیں بلکہ تجربے اور مشاہدے سے جنم لیتی ہے۔
غالب کا یہ مشہور شعر:
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
ان کے مزاج اور اسلوب کا آئینہ دار ہے۔ اس شعر میں محبوب کے دیدار سے حاصل ہونے والی وقتی مسرت بیان ہوتی ہے، مگر اس کے پردے میں جدائی کا وہ گہرا کرب چھپا ہے جسے محبوب محسوس نہیں کر پاتا۔ غالب محبت کا زبردستی اظہار نہیں کرتے؛ وہ چاہیں تو سب کچھ کہہ سکتے ہیں، مگر ضبط، وقار اور مراتب کا لحاظ ان کی عظمت کو اور نمایاں کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر شعر سننے اور پڑھنے والوں کو بے اختیار داد دینے پر مجبور کر دیتا ہے۔
غالب کی شخصیت دریا کی مانند تھی، مسلسل بہنے والی، گہرائی لیے ہوئے اور اپنے ساتھ بہت کچھ سمیٹے ہوئے۔ وہ کہتے ہیں:
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
یہاں غالب روایت، وقت اور انسانی امیدوں کا ذکر کرتے ہیں۔ آنے والے کل کی خوش خبری دراصل انسان کو حوصلہ دیتی ہے کہ زندگی صرف حال کی تلخیوں کا نام نہیں۔ اس شعر میں اظہار کو مؤخر کرنے کی حکمت بھی ہے اور مستقبل کی روشنی پر یقین بھی۔
غالبؔ کی شاعری صرف عشقِ مجازی تک محدود نہیں۔ وہ دنیا داری سے آگے بڑھ کر انسان اور انسان کے درمیان بکھرتے رشتوں، خاموش دکھوں اور اندرونی کشمکش کو بھی موضوع بناتے ہیں۔ وہ خاموش بیٹھے انسان کو تھپکی دیتے ہیں اور اس کے دل کا حال پوچھتے ہیں:
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
یہ اشعار محض عاشقانہ شکوہ نہیں بلکہ انسانی نفسیات کی گہری تفہیم کا ثبوت ہیں۔ یہاں سوال عشق کا بھی ہے اور وجود کا بھی۔
جوں جوں ہم غالب کی غزلوں میں اترتے ہیں، ایک ایسا شخص سامنے آتا ہے جو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ رہنما اور مفکر بھی ہے۔ وہ امید دلاتے ہیں کہ آنے والا وقت اپنا ہو سکتا ہے، بس ہمت اور حوصلہ شرط ہے۔ کبھی وہ خدا سے سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں، کبھی اس سے ہم کلام۔ یہی بے باکی اور صداقت انہیں منفرد بناتی ہے۔ غالب نے دنیا دیکھی، دنیا کے دکھ سہے، اور دنیا میں ہونے کا مفہوم پوری طرح سمجھا۔
غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب اس پر کہے بغیر
اکثر لوگ اسے محبوب سے خطاب سمجھتے ہیں مگر درحقیقت یہ شعر خدا سے تعلق کی طرف اشارہ ہے۔ غالب کے نزدیک عشق ہی سچی عبادت ہے، چاہے وہ انسان سے ہو، کام سے ہو یا خالق سے۔ ان کے ہاں عشق اور ایمان ایک دوسرے سے جدا نہیں۔
یقیناً مرزا غالب جیسے شاعر کو چند لفظوں میں سمیٹنا ہماری جسارت ہی کہی جا سکتی ہے۔ غالب کو سمجھنے کے لیے ذاتی جذبات سے آگے بڑھ کر انسانی رشتوں کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔ جب انسان کو سمجھنے کا ہنر آ جائے، تو غالب کے اشعار کی پیچیدگیاں خودبخود کھلتی چلی جاتی ہیں اور ان کی عظمت دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔