صاحب طرز فکشن نگار غضنفر

غضنفر کی متعدد تصنیفات کو انعامات واعزازات سے نوازہ جا چکا ہے۔ وہ کئی علمی اور تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں۔

غضنفر
غضنفر
user

جمال عباس فہمی

جس اہل قلم اور اس کی نگارشات پر نو کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ جس کی ادبی خدمات پر تحقیقی مقالے لکھ کو درجن بھر سے زیادہ اسکالرز ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں، اردو ادب میں اس قلمکار کو غضنفر کہا جاتا ہے۔غضنفر ہمہ جہت صلاحیتوں کے حامل قلمکار ہیں۔ وہ فکشن نگار بھی ہیں اور شاعر بھی۔ وہ محقق اور تنقید نگار بھی ہیں اور خاکہ نگار بھی۔ وہ ڈرامہ نگار بھی ہیں اور ماہر درس و تدریس بھی۔ اردو شاعری میں زوال کی شکار صنف مثنوی میں طبع آزمائی کرکے انہوں نے اس صنف کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ غضنفر کی متعدد تصنیفات کو انعامات واعزازات سے نوازہ جا چکا ہے۔ وہ کئی علمی اور تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں۔ غضنفر کی قلمی کاوشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے ہمیں بہار چلنا ہوگا۔

غضنفر 9مارچ 1953ء کو بہار کے ضلع گوپال گنج کے ایک گاؤں چوراؤں میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام عبدالمجیب تھا۔ گھریلو رواج کے مطابق غضنفر کے تعلیمی سلسلے کا آغاز مدرسے سے ہوا، لیکن مدرسے کے پابند اور خشک ماحول اور اساتذہ کی بے رحم چھڑی کی مار نے جلد ہی انھیں مدرسے سے مکتب میں پہنچا دیا۔ 1970 میں گوپال گنج کے ایم ایم ایچ ای اسکول سے ہائر سکنڈری اور گوپال گنج کالج سے 1973 میں بی اے آنرس کیا۔ 1976 میں علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1982 میں مولانا شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات پر مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔


غضنفر کے ادبی سفر میں نام کی تبدیلی کا بڑا دخل رہا ہے۔ بچپن میں غضنفر اشفاق احمد ہوا کرتے تھے۔ لیکن عقیقہ کے موقع پر ان کے ماموں نے ان کا نام غضنفر علی رکھ دیا۔ جب ان کا قلمی سفر شروع ہوا تو انہوں نے غضنفر کے جی اور علی کے اے کو باہم یکجا کرکے اس کے ساتھ غضنفر لگا لیا اور اس طرح وہ جی اے غضنفر ہو گئے۔ اسی قلمی نام سے ان کا پہلا ڈرامہ’ کوئلے سے ہیرا‘ شائع ہوا۔ جب جی اے غضنفر ایم اے میں تھے تو ایک دوست کے مشورے سے انہوں نے اپنا قلمی نام جی اے کے مخفف کو مکمل نام میں تبدیل کرکے غضنفر علی غضنفر کرلیا۔ اسی نئے قلمی نام سے ان کی پہلی تنقیدی کتاب ’مشرقی معیار نقد‘ شائع ہوئی۔ لیکن ابھی غضنفر علی غضنفر کے قلمی نام میں ایک حتمی تبدیلی ہونا باقی تھی۔ غضنفر جس موجودہ قلمی نام سے ادب کی دنیا میں پہچان قائم کئے ہوئے ہیں یہ اردو کے مایہ ناز ادیب، محقق اور ناقد شمس الرحمان فاروقی کی دین ہے۔

غضنفر علی غضنفر کی غزلیں جب شمس الرحمان فاروقی کے جریدے ’شب خون‘ میں شائع ہوئیں تو شمس الرحمان فاروقی نے یہ کہتے ہوئے کہ ایک نام میں دو دو غضنفروں کا کیا کا کام ہے، غضنفر علی غضنفر کو محض غضنفر تک محدود کر دیا۔ اس کے بعد سے آج تک غضنفر کو قلمی نام تبدیل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اب ان کے پانچ حرفی نام میں تخفیف کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین کو غضنفر کے مختصر نام میں انوکھا پن نظر آیا تو انہوں نے یہ تبصرہ کیا کہ’’ غضنفر کے نام کا اختصار ان کی قامت کو مختصر نہیں کرتا بلکہ اس کو اور بلند کرتا ہے۔"


غضنفر قلمی کاوش میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں جس کا ثبوت منظر عام پر آنے والی ان کی پچیس سے زیادہ کتابیں ہیں۔ جن میں 9 ناول پانی، کینچلی، کہانی انکل، دویہ بانی، فسوں، وش منتھن، مم، شوراب اور مانجھی، دو افسانوی مجموعے ’حیرت فروش‘ اور ’پارکنگ ایریا‘ ایک ڈرامہ ’کوئلے سے ہیرا‘ خاکوں کے دو مجموعے’ سرخ رو‘ اور روئے خوش رنگ‘ اور دو شعری مجموعے ’آنکھ میں لکنت‘ اور ’سخن غنچہ‘ ناقدین ادب اور صحت مند ادب پڑھنے کے شوقینوں کی توجہ حاصل کر چکے ہیں۔ مثنوی ’کرب جاں‘ لکھ کر انہوں نے اس مرتی ہوئی صنف سخن میں جان پھونکنے کی کوشش کی ہے۔ ’دیکھ لی دنیا ہم نے‘ عنوان سے وہ خود نوشت بھی لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے تنقیدی اور تدریسی نوعیت کی کتابیں بھی لکھی ہیں ان کے دو ناولوں ’دویہ بانی‘ اور ’کہانی انکل‘ کا ہندی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ناول ’مانجھی‘ کا مصر کے ادیب ولا جمال العسیلی نے عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ تنقیدی کتابوں میں ’مشرقی معیار نقد‘ ’زبان و ادب کے تدریسی پہلو‘ ’تدریس شعر و شاعری‘ اور ’فکشن سے الگ‘ ان کی ناقدانہ فکر کی غماز ہیں، جبکہ ان کے اندر موجود درسی حس نے انہیں ’لسانی کھیل اور ’درس و تدریس کا جدید طریقہ کار‘ جیسی کتابیں تحریر کرنے کو مجبور کیا۔

اردو کے ایک بہت قدآور ناقد اور ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ڈاکٹر وہاب اشرفی کی رائے غضنفر کی ناول نگاری بحیثیت مجموعی ان کی سوچ، ان کے موضوعات اور اسلوب کے تعلق سے بہت اہم ہے۔ بقول وہاب اشرفی، ’’در اصل وہ (غضنفر) زندگی کی تطہیر چاہتے ہیں۔ زندگی ہو کہ اس کے مختلف جہات ان کی تطہیر چاہتے ہیں۔ سیاست کو پاکیزہ و منزہ کرنا چاہتے ہیں اور کائنات کے بعض پیچیدہ صورتوں کی تفہیم میں بھی سرگرم عمل معلوم ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کا اسلوب کہیں اساطیری، کہیں اشاراتی، کہیں علامتی، تو کہیں بالکل سامنے کی کیفیت سے عبارت ہوتا ہے۔ ان کے ناولوں کا سرسری مطالعہ بھی یہ احساس دلاتا ہے کہ Mythology پر ان کی بڑی نگاہ ہے جسے وہ موقع بہ موقع exploitکرتے رہتے ہیں لیکن اس عمل میں وہ میکان کی نہیں ہوتے۔ جہاں معیاری زبان کی ضرورت ہے، وہاں وہ بے حد چوکس نظر آتے ہیں جہاں شاعرانہ کیف مطلوب ہے وہاں تخلیقی جوت جگانا چاہتے ہیں۔‘‘


غضنفر اپنے آس پاس کے ماحول اور معاشرتی تبدیلیوں کو اپنے ہی انداز میں دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔ غضنفر کے افسانوں اور ناولوں میں عصری حسیت کے زبردست نمونے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کے پھیلتے زہر کے سبب انسانی رشتوں کا تانا بانا کیسے بکھر چکا ہے اس کا نمونہ ان کی تحریر ’تختی یا تختہ‘ ہے۔

ابا! آپ نے اپنے ٹھیلے پر یہ کیسی تختی لگا رکھی ہے؟"

"اپنے نام کی"

"مگر آپ کا نام تو رحیم خان ہے اور اس پر شنکر رام لکھا ہوا ہے۔"

"آج سے یہی میرا نام ہے۔"

"مگر کیوں ابا! آپ نے نام کیوں بدل لیا؟"

"نہیں بدلتا تو ٹھیلے کی سبزیاں بنا بکے ہی واپس آ جاتیں۔"

"مگر ایسا کرنے سے جانتے ہیں کیا ہوگا؟"

"کیا ہوگا۔؟"

خدا نخواستہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو..."

شمشان پہنچ جاؤں گا۔ یہی نا؟ بیٹے! جس صورت حال میں ہم آج پہنچ گئے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ قبرستان میں بھی جگہ مل ہی جائے۔"

بیٹے کی آنکھوں میں یکایک قبرستان کا پھاٹک کھلا اور پھر کھٹاک سے بند ہو گیا۔‘‘

یہ مختصر سی تحریر، پڑھنے والے کے دل میں درد کی ایک تیز لہر پیدا کر دیتی ہے اور وحشت ناک مستقبل کے تعلق سے اس کے بدن میں سہرن دوڑا دیتی ہے۔

شاعری میں غضنفر کی پسندیدہ صنف نظم ہے۔ لیکن وہ پابند غزل بھی کہتے ہیں۔ غضنفر کے کچھ اشعار بطور نمونہ پیش ہیں۔ نثر کی طرح نظم میں بھی غضنفر کا انداز جداگانہ ہی ہے۔

بچ کے دنیا سے گھر چلے آئے

گھر سے بچنے مگر کدھر جائیں

.....

معنی والے لفظ بے معنی ہوئے

آگ تھے جو کل تلک، پانی ہوئے

.....

سلسلے سچ ہے کہ طولانی ہوئے

سچ مگر یہ بھی کہ بے معنی ہوئے

.....

خوش ہوتا ہوں دیکھ کے آنسو پلکوں پر

در پر جیسے راج دلارے آتے ہیں

.....

ہم تو اس احساس سے پیارے ہیں بے خود

ذہن میں اب بھی خواب تمھارے آتے ہیں

.....

بھگوتا ہے مجھے صحرا، سکھاتی ہے ندی مجھ کو

دکھاتی ہے عجب منظر، غضنفر زندگی مجھ کو

.....

لگے گی بات یہ کچھ اٹ پٹا لیکن حقیقت ہے

سکھاتی ہے نیکو کاری، نگوڑی یہ بدی مجھ کو


غضنفر کی ادبی حیثیت کس قدر مسلم ہےاس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی فکشن نگاری کے مختلف پہلؤوں پر ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے درجنوں اردو اسکالرز نے تحقیقی مقالے تحریر کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ چار اسکالرز ان کی قلمی خدمات پر تحقیقی مقالے تحریر کر رہے ہیں۔ غضنفر کے کئی ناولوں، ان کی فکشن نگاری اور ان کی دیگر ادبی خدمات پر 9 کتابیں تحریری شکل میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کے کئی ناول اور تنقیدی کتابوں کو مختلف ریاستی اردو اکادمیاں اعزاز و انعام سے نواز چکی ہیں۔ وہ متعدد ادبی، تعلیمی اور تدریسی اداروں اور انجمنوں سے وابستہ ہیں۔ غضنفر کو بطور اردو ادیب یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ وہ گیان پیٹھ ایوارڈ جیوری کے پانچ برس تک ممبر رہے۔ پانچ حرفی نام کے اس قلمکار کی متعدد تصانیف قرطاس و قلم کے باہمی ارتباط کے مرحملے میں ہیں جن میں اردو ہندی لغت اور ایک مثنوی بھی شامل ہے، حال ہی میں گزری 9مارچ کو غضنفر 69برس کے ہوگئے۔ 69 بہاریں دیکھ چکا یہ قلمکار اردو ادب کے گلزار میں مختلف رنگوں کے پھول کھلانے میں مصروف ہے۔ جن کی خوشبو اہل اردو کے دل و دماغ کو معطر کر رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔